یہ امر تو طے شدہ ہے کہ عالمی تعلقات اور ممالک کے رشتے دوستی، خلوص اور محبت نہیں مفاد کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں، کابل میں امریکا کے سہارے بیٹھے حکمران اور بھارت کے باہمی تعلق کی بات کی جائے تو ’مفاد‘ کی جگہ ’منافقت‘ کا لفظ زیادہ مناسب لگتا ہے۔ بھارت نے گذشتہ مہینے افغانستان کو کووڈ19کی ویکسین فراہم کی، جسے ظاہر ہے قابل ستائش ہی کہا جاسکتا ہے۔ ویکسین کے تحفے پر افغانستان کے صدراشرف غنی نے اظہارتشکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے افغانستان کے ساتھ جس اظہاریکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ دونوں ممالک کے گہرے تاریخی تعلقات کی علامت اور اس بات کا عہد ہے کہ دونوں ”جمہوریتیں“ خطے میں ایک ساتھ کام کرتی رہیں گی۔ ان کے اس بیان پر بھارت میں بہت خوشی منائی گئی اور اقوام متحدہ میں بھارتی مشن نے اشرف غنی کے ان پر مبنی ایک منٹ ستائیس سیکنڈ کی وڈیو بڑے فخر سے ٹوئٹ کی۔ بھارت کے ہندوانتہاپسند حکم راں اور ان کی سوچ کے حامل سفارت کاری، میڈیا، سیاست وغیرہ سے وابستہ بھارتی شاید یہ وضاحت کرنے سے معذور رہیں گے کہ اشرف غنی نے افغانستان اور بھارت کے درمیان جن تاریخی تعلقات کا ذکر کیا ہے ان کی نوعیت کیا تھی۔ وہ محمودغزنوی اور احمدشاہ ابدالی جو ہندوتوا کی سیاست کرنے والوں کے لیے سب سے بڑے ولن ہیں افغانوں کے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے یہ انتہاپسند افغانستان کو بھی تاریخی طور پر ہندوستان کا حصہ سمجھتے اور اس کو بھارت میں ضم کردینے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے افغان صدر کا پیغام اور بھارتی ردعمل کسی لطیفے سے کم نہیں۔ دراصل یہ بھارت کی افغانستان کو پاکستان کے خلاف مورچہ بنانے کی حکمت عملی ہے جس کے باعث دہلی کے سنگھاسن پر بیٹھے لوگ اور ان کے ہمنوا اپنی ہی بیان کردہ تاریخ کے سارے نکات اور حقائق سے نظریں چرانے پر تیار ہیں۔
بھارت کا افغانستان میں عمل دخل اس وقت واضح طور پر بڑھا جب نائن الیون کے بعد امریکا نے افغان سرزمین پر دھاوا بول کر طالبان کی حکومت ختم کی اور حامد کرزئی کی صورت میں اپنا کٹھ پتلی حکمران کابل میں لاکر بٹھادیا۔
نائن الیون کا سانحہ رونما ہونے کے بعد جب امریکا غصے میں بپھرا ہوا اور انتقام لینے پر تلا تھا تو بھارت نے آگے بڑھ کر ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا حصہ دار بننے کی پیشکش کی تھی، جس کا مقصد یہی تھا کہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف اپنا اڈا بنایا جائے۔ بھارت اپنے اس مکروہ ارادے میں خاصی حد تک کام یاب رہا۔ واشنگٹن کی چھتری تلے اور افغانستان کے حکمرانوں کی دی گئی مراعات کے تحت اس نے افغانوں کی زمین پر پنجے گاڑ دیے، جہاں بیٹھ کر وہ مسلسل پاکستان کو غیرمستحکم اور انتشاروخلفشار میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں لگا ہے، دوسری طرف وہ پاکستان کی کوششوں سے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات، ان مذاکرات کی کام یابی کے امکان، افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور کابل میں طالبان کے مکمل اقتدار یا ان کے شریک اقتدار ہونے سے خوف زدہ ہے۔ ایسا ہونے کے صورت میں اسے افغانستان سے بوری بستر سمیٹ کر نکلنا پڑے گا اور وہ وہاں رہتے ہوئے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے سنہری موقع سے ہاتھ دھوبیٹھے گا۔ چنانچہ صاف لگتا ہے کہ بھارت افغانستان کے حالات خراب رکھنے اور وہاں خانہ جنگی جاری رکھنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ افغانستان کے عدم استحکام اور وہاں بدامنی نہ پاکستان کے مفاد میں ہے نہ امریکا کے لیے فائدہ مند۔ افغانستان میں امریکا کو ہونے والا شدید مالی نقصان اور وہاں سے امریکا آنے والے فوجیوں کے تابوت واشنگٹن کو مجبور کرچکے ہیں کہ وہ کسی طرح عزت بچاکر افغانستان سے نکل جائے۔ امن کا ایک وقفہ اسے یہ موقع فراہم کرسکتا ہے کہ وہ اپنے ارادے پر عمل کرسکے، لیکن بھارت جانتا ہے کہ ایسا کوئی بھی موقع آیا تو وہ افغانستان میں اڈے بنا کر پاکستان کے خلاف سازشوں کے سارے موقع گنوا سکتا۔ اس تناظر میں اگر افغانستان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات اور وہاں داعش کے ابھرنے اور اس کی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہ سب کس کے فائدے میں ہے۔
پاکستان کے خلاف کسی براہ راست اقدام کی پسپائی بھارت اپنے پائلٹ ابھی نندن کی شکل میں دیکھ چکا ہے۔ ابھی نندن کے ساتھ بھارتی حکمرانوں اور فوجی حکام کے منہ میں بھی اس چائے کی مٹھاس کڑواہٹ بنی ہوئی ہوگی جو موصوف نے پاکستان میں نوش فرمائی تھی۔ ایسے میں بھارت اور بھی اچھی طرح جان گیا ہے کہ وہ صرف پیٹھ پر وار کرکے ہی پاکستان کو کمزور کرسکتا ہے، جس کے لیے اس کی افغانستان میں موجودگی ناگزیر ہے۔ وہ افغانستان کو اپنا بیس بنائے بلوچستان میں آگ لگانے اور اسے مزید بھڑکانے کے لیے کارروائیاں کرتا رہتا ہے، ساتھ ہی وہ پاکستان میں مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلانے کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے۔
یہ اب کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت افغانستان میں موجود اپنے قونصل خانوں کی مدد سے دہشت گردوں کو تربیت اور ہتھیار دے کر پاکستان بھیجتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے کروڑوں ڈالر کا خرچہ کرکے پاکستان میں سرگرم مختلف مذہبی، قوم پرست اور علیحدگی پسند تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا ہے، تاکہ وہ باہمی اشتراک وتعاون سے دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دیں۔ گذشتہ سال نومبر میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے مشترکہ پریس بریفنگ دیتے ہوئے دنیا کو بتایا تھا کہ کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی کا ایک افسر کرنل راجیش افغانستان میں بھارتی قونصل خانے میں بیٹھ کر پاکستان میں مختلف عسکری تنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس پریس بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ”نائن الیون کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے انیس ہزار ایک سو تیس حملے ہوئے جن میں تراسی ہزار سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایک سو چھبیس ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔“
یہ سارے حقائق سامنے آنے اور شواہد پیش کیے جانے کے باوجود عالمی برادری نے کوئی نوٹس نہ لیا اور وہ پاکستان میں بھارت کی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس بھارتی سرزمین پر اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے، اور شہادتیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوں کہ اس میں خود بھارت ملوث ہے، تب بھی بھارت کے پاکستان خلاف واویلا مچانے پر امریکا اور مغربی ممالک دہلی سرکار کے ہمدرد بن کر پاکستان کو احکامات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ عالمی برادری کی یہ دوعملی افسوس ناک ہے جو کھلی منافقت کے سوا کچھ نہیں۔
جیسا کہ اس مضمون میں افغانستان میں داعش اور بھارت کے تعلق کو اجاگر کیا گیا تو یہ کوئی الزام نہیں۔ جون 2020 میں امریکا کے ادارے ”فارن پالیسی“ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں صاف صاف لکھا تھا کہ ایشیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم داعش کے دہشت گردوں کے بھارت سے روابط ہیں اور ان دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔ فارن پالیسی کی یہ رپورٹ 2019 میں سری لنکا میں گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر ہونے والے خوفناک حملوں میں بھی داعش اور بھارت کو مشترکہ طور پر ملوث قرار دیتی ہے۔
یہ حقائق بتاتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں اپنے مورچے لگاکر پاکستان ہی کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں نہیں کر رہا وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے بھی کوششوں میں مصروف ہے۔ دنیا اور خاص طور پر افغان حکومت کو بھارت کا یہ کردار سمجھنا ہوگا، ورنہ افغانستان میں امن ہوسکے گا نہ دنیا سے دہشت گردی ختم ہوپائے گی۔