ایک چھوٹا سا قصبہ اٹک خورد کے نام سے دریائے سندھ پر آباد ہے۔ وہاں پر انگریزوں کے دور میں ایک چھاؤنی بنائی گئی اور پھر وہ ایک بڑے شہر میں تبدیل ہوگیا۔ اس کا نام کیمبل پور رکھا گیا مگر اب اس کو اٹک شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اٹک ایک تاریخی مقام ہے۔ یہاں اکبر بادشاہ نے ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا جو قلعہ اٹک بنارس کے نام سے مشہور ہے۔ جس جگہ پر اٹک کا پل ہے، اس جگہ دریائے سندھ اور دریائے کابل ملتے ہیں اور دونوں دریاؤں کے پانی کا رنگ مختلف ہے۔ کافی دور تک دونوں دریاؤں کا پانی ساتھ ساتھ بہتا ہے اور آپس میں نہیں ملتا۔ دریاۓ سندھ کا پانی ہلکے سبز رنگ کا اور دریائے کابل کا رنگ مٹیالے رنگ کا ہے۔ یہاں پر مشہور تحصیلیں حسن ابدال، فتح جنگ، پنڈی گھیب، حضرو اور جنڈ شامل ہیں۔ حسن ابدال میں سکھوں کا سب سے بڑا گوردوارہ پنجہ صاحب بھی ہے، جہاں ہر سال دنیا بھر کے سکھ یاتری حاضری دیتے ہیں۔
یہ ضلع پنجاب کے دوسرے میدانی علاقوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اٹک کے شمال میں دریائے سندھ 80 کلو میٹر تک سرحدی پٹی کے طور پر بہتا ہے اور خیبرپختونخوا کے اضلاع سے جدا کرتا ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اٹک ضلع خیبرپختونخوا اور پنجاب کے سنگم پر واقع ہے اور پنجاب کا آخری ضلع ہے۔ شمال میں اس کی حدود صوابی اور ہری پور سے ملتی ہیں۔ ضلع اٹک کا سب سے بڑا اور بلند پہاڑی سلسلہ "کالا چٹا” ہے۔ اس پہاڑی سلسلہ کے شمال میں پتھروں کا رنگ سفید اور جنوب میں گہرا سلیٹی ہے، یعنی سفید و سیاہ، اسی مناسبت سے اسے کالاچٹا پکارا جاتا ہے۔
اٹک کی سرحدیں سات اضلاع سے ملتی ہیں جن میں چار کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا سے ہے، ان میں نوشہرہ۔کوہاٹ اور پنجاب میں چکوال، میانوالی اور راولپنڈی ہیں۔ دریائے سندھ اور تربیلا ڈیم نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ بہت زرخیز ہے اور سونا اگلتی فصلیں یہاں ہوتی ہیں۔ اس کے پہاڑی سلسلے میں کئی درخت اگتے ہیں، جن میں قابل ذکر درخت گنگھیر یا گنگور ہے، جس میں کالے رنگ کا فالسے جیسا پھل لگتا ہے۔ یہ پھل کھانے میں بہت لذیذ ہوتا ہے اور یہ درخت پورے پاکستان میں صرف یہیں پایا جاتا ہے۔ یہاں ایک درخت اور بھی پایا جاتا ہے جسے ” کہو” کہتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے پتو قہوہ اور چائے بنا کر استعمال کرتے ہیں۔