اسلام آباد: فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور درندگی کے ایک سال مکمل ہونے پر وہاں بسنے والے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائی گئی ہے، جس میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے 2 ریاستی حل کی مخالفت کردی۔
حکومت کی جانب سے منعقدہ اے پی سی کا آغاز مولانا عبدالغفور حیدری کی جانب سے تلاوت کلام سے کیا گیا، آل پارٹیز کانفرنس میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔
البتہ پاکستان تحریک انصاف نے مسئلہ فلسطین پر ہونے والی حکومتی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم سمیت کئی سیاسی رہنما شریک ہوئے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے فلسطین کے معاملے پر ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل تمام قبضہ کیے گئے عرب علاقوں سے واپس جائے، عالمی برادری فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام ہوئی ہے۔
آصف علی زرداری نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے، اسرائیلی جارحیت کے باعث 41 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے، فلسطین اور غزہ میں صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ مکمل تباہ ہوچکا، ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے، ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔
صدر زرداری کا کہنا تھا کہ ہم سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے، متفقہ ڈرافٹ اور میرے دل کی آواز، دونوں ساتھ ہیں، پاکستان کا فلسطین سے بہت تعاون رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق حل کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا، فلسطین کے 2 ریاستی حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن نہیں ہوسکتا۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے فلسطین کے معاملے پر ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں پر بدترین ظلم ڈھایا جارہا ہے، غزہ میں علاقے کھنڈرات بن رہے ہیں، ماؤں کی گود سے بچے چھین کر شہید کیے جاتے ہیں، دنیا نے عجیب طریقے کی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ فلسطین کو انسانی مسئلہ نہیں سمجھا جارہا، اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، اقوام متحدہ بے بس بیٹھی ہوئی ہے، شہباز شریف نے یو این تقریر میں فلسطین کا مسئلہ پُرزور طور پر اٹھایا، لگتا ہے یو این کو بھی فکر نہیں، اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کراسکتی۔
انہوں نے کہا کہ جو دنیا کو انصاف نہ دے سکے، ظلم نہ روک سکے افسوس ناک ہے، یاسرعرفات نے فلسطینی عوام کے لیے بڑی جدوجہد کی، فلسطینیوں کا خون رنگ لاکر رہے گا۔
صدر ن لیگ نواز شریف کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے جو روڈمیپ دیا ہے اس پر غور ہونا چاہیے، مسلم ممالک کو فیصلہ کُن اقدامات کرنے چاہئیں، اسلامی ممالک اپنی قوت آج استعمال نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام چاہتے ہیں ہم فیصلہ کن اقدامات کریں، پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور کھڑا رہے گا، فلسطین سے متعلق خاموشی اختیار کرنا انسانیت کی تذلیل ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مسئلہ فلسطین پر ہونے والی حکومتی اے پی سی میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے مجاہدین نے حملہ کیا، حماس کے حملے نے فلسطین کے مسئلے کی نوعیت تبدیل کردی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کے ناسور کا فیصلہ 1917 میں برطانوی وزیرخارجہ بالفور نے کیا، قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا، ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث پر تعجب ہوتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کرے گی، دو ریاستی حل کا جواز نہ شرعی، نہ سیاسی اور نہ جغرافیائی طور پر ممکن ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ امت نے ایک سال کے دوران جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے وہ جرم ہے، امت کی بے حسی کے جرم میں پاکستان بھی برابر کا شریک ہے، کیا ہمیں اس کا احساس ہے؟ اس کانفرنس کی قرارداد سے فلسطینیوں کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہوگا، فلسطینی بھائیوں کو ہمارے زبانی جمع خرچ کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس اسلام دشمنوں کی نظر میں دہشت گرد ہوگی، ہماری نظر میں نہیں ہے، پاکستان مصر، ترکی، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک سے مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنائے، آج کا اجلاس معنی خیز ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین پر ہونے والی حکومتی اے پی سی میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں 173 صحافی، 900 سے زائد ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس شہید ہوچکے ہیں، جو کچھ اسرائیل کررہا ہے اسے نسل کشی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
حافظ نعیم نے کہا کہ اس پلیٹ فارم سے صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیغام جانا چاہیے، قائداعظم کا بھی یہی مؤقف تھا کہ اسرائیل صرف ایک قابض طاقت ہے، دو ریاستی حل یا 1967 کی پوزیشن کی حمایت قائداعظم کے اصولی مؤقف کی نفی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قبضے کے خلاف لڑرہے ہیں، دو ریاستی حل کی بات اسرائیل کو قائم رہنے کا جواز فراہم کرنا ہے، اسرائیل کو عرب اور مسلم ممالک کی خاموشی نے طاقت فراہم کی ہے، ہم اعلان بالفور اور یہودیوں کو فلسطین پر مسلط کرنے کو نہیں مانتے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ وزیراعظم سے درخواست ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہوں کا اجلاس بلائیں، ان ملکوں کی افواج کے سربراہوں کو بھی بلائیں، فلسطینیوں کی امداد بڑھانی ہوگی، فلسطینی بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے اعلامیے میں دو ریاستی حل اور 1967 کی پوزیشن کی بات نہیں ہونی چاہیے، اسرائیل کا ایک انچ کا وجود بھی تسلیم نہیں کریں گے۔