سندھ کے مزاروں پر بعض لوگ روحانی سکون کے لئے جاتے ہیں تو بعض منتیں مانگنے۔ مزاروں پر بعض اوباش اور مجرم ذہنیت رکھنے والے بھی بُری نیت سے جاتے ہیں۔ ضلع خیرپور کے پیر کٹپر سے ایک ماہ قبل اغوا ہونے روبینہ کی داستان بڑی درد ناک ہے۔
برطانوی راج سے قبل سندھ کے آخری مقامی حکمران ٹالپر تھے جو میر کہلاتے تھے۔ تب کی خیرپور ریاست کو میروں کا خیرپور یا بعد انگریز حکمرانوں نے باقاعدہ خیرپور میرس کا نام دیا۔ اسی خیرپور میں کوٹ ڈیجی کا قلعہ قدیم تہذیب سے وابستہ تاریخی مقام ہے۔ خیرپور میں ہی نیشنل ہائی وے کے ساتھ ہی درازہ شریف میں عظیم صوفی شاعر ہفت زباں حضرت سچل سرمست کا بھی مزار ہے۔ لیکن کوٹ ڈیجی کے قریب ہی کٹپر فقیر کے مزار سے ایک ماہ قبل ایک نوجوان لڑکی اغوا ہوئی، جسے بعد میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا اور لاش نہر میں پھینک دی گئی۔ اسی طرح کے ہی ایک واقعے پر انیس سو ستر کی دہائی میں سندھی زبان کے معروف افسانہ نویس نسیم کھرل نے ایک شاندار افسانہ لکھا تھا۔ چوٹیہوں در ( چونتیس واں دروازہ ) سکھر بیراج کے چونتیسویں دروازے میں پھنسی ایک لڑکی کی لاش اور پولیس کا لاش نکالنے کے بجائے تھانوں کی حدود پر لڑنے کی نشاندہی کی گئی تھی اور جاگیردارانہ سماج کی عکاسی کی گئی تھی، حالانکہ نسیم کھرل خود بھی اسی کلاس سے تعلق رکھتا تھا، لیکن ایک ماہ قبل اغوا ہونے والی روبینہ اُجن کی لاش بھی کنڈیارو کی نہر میں پھنسی رہی جسے بعد میں مقامی افراد نے باہر نکال کر نا معلوم سمجھ کر دفنا دیا۔ لاش کی وڈیو وائرل ہونے کے بعد روبینہ کے بھائی شاعر مبین اجن نے وڈیو کے ذریعے لاش کی شناخت کی کوٹ ڈیجی تھانے پر مقدمہ درج کرایا اور لاش کی قبرکشائی اور پوسٹ مارٹم کی درخواست دی ہے۔
گذشتہ ماہ 21 تاریخ کو درج مقدمے کے مطابق نوجوان لڑکی روبینہ اپنی والدہ کے ہمراہ کوٹ ڈیجی کے قریب کٹپر مزار پر گئی تھی جہاں سے روبینہ کو چار افراد نے اغوا کیا جس کے بعد والدین کو کچھ نہیں پتہ کہ روبینہ کہاں گئی۔روبینہ کے بھائی سندھی زبان کے شاعر اور ایف آئی آر کے مدعی مبین اجن کا کہنا ہے کہ مزار پر موجود ایک خاتون کے ذریعے میری بہن کو اغوا کرایا گیا جن لوگوں پر شک تھا ان کو ایف آئی آر میں نامزد کیا ہے جن میں سے پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار بھی کیا ہے۔ گرفتار ملزم بابر شیخ نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اپنے دوستوں کے ہمراہ روبینہ کو اغوا کیا اور قتل کیا ہے۔ اعترافی بیان میں ملزم نے کہا ہے کہ وہ روبینہ سے پیار کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن روبینہ نے شادی کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اس لئے ہم نے اغوا کا منصوبہ بنایا تھا۔
ملزم کے اعترافی بیان کے مطابق چار افراد نے مہران کار میں روبینہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک گھر میں بند رکھا۔ اسے شادی کرنے پر مجبور کیا لیکن جب وہ نہ مانی تو ہم نے اسے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ چونکہ روبینہ نے مزاحمت کی اس لئے ہم نے اسے مارا جس کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ بعد میں ہم نے لاش گاڑی میں ڈال کر نہر میں پھینک دی۔ ایک ماہ کے بعد مقتولہ کے بھائی نے لاش کی پوسٹ مارٹم اور قبر کشائی کی درخواست دی ہے۔ مبین اُجن کا کہنا ہے کہ کوٹ ڈیجی پولیس نے ایک ملزم کو تو گرفتار کیا ہے لیکن دیگر تین با اثر ملزمان اور ملزمان کی سہولت کار خاتون کو پولیس گرفتار نہیں کر رہی۔ سندھ کے علمی ادبی حلقوں نے شاعر مبین کی بہن کی قاتلوں کی گرفتاری اور سخت سزائیں دینے کا بھی مطالبہ کیاہے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں لیکن بقول مبین اُجن کے پولیس روایتی حربے استعمال کر رہی ہے بہن کے قتل کے غم میں پیرسن والدہ زندہ لاش بن گئی ہے۔ انہوں نے پولیس کے اعلی حکام اور اعلی عدلیہ سے انصاف طلب کیا ہے۔
جنسی درندگی کا نشانہ بن کر قتل ہونے والی روبینہ اُجن کوئی پہلی لڑکی نہیں صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں سے اکثر اس قسم کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بڑھتے واقعات کے ملزمان کو سزائیں نہ ملنا ناقص پولیس کارکردگی اور کمزور عدالتی سرشتے کی جانب انگلیاں اٹھاتے ہیں مگر انصاف ملنے کے بجائے اٹھنے والی انگلیاں ہی کاٹ دی جاتی ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی کسی بے گناہ لڑکی کی لاش سکھر بیراج کے چونتسویں دروازے میں پھنسی ہوئی ہے جسے نکالنے کے بجائے پورا معاشرہ پھنسی ہوئی لاش کی بدبو سے جیسے بھاگ رہا ہو۔