نظریے کو کوئی نہیں مار سکتا

عبدالعزیز بلوچ

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بے نظیر بھٹو کا نام محض ایک حکمران کا نہیں بلکہ ایک ایسی لافانی داستان کا ہے، جس نے جبر کے دوران نمو پائی اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر امر ہوگئی۔ کراچی کی تپتی دھوپ میں آنکھ کھولنے والی یہ شہزادی جب ہارورڈ اور آکسفورڈ کی راہداریوں سے نکلی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ نازک اندام لڑکی ایک دن آمریت کے فولادی ایوانوں کو لرزہ براندام کردے گی۔ ان کی زندگی ایک ایسی کتاب کی مانند ہے جس کا ہر ورق جدوجہد کی سیاہی اور قربانی کے لہو سے لکھا گیا ہے۔
اپنی شہرۂ آفاق آپ بیتی "مشرق کی بیٹی” میں وہ اس کرب ناک لمحے کی تصویر کشی کرتی ہیں جب راولپنڈی کی کال کوٹھری میں سلاخوں کے پیچھے سے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے ان کا ہاتھ تھام کر کہا تھا کہ "پنکی، اب تمہیں میری جگہ لینی ہے اور اس قوم کی تقدیر بدلنی ہے، چاہے اس کی قیمت تمہاری جان ہی کیوں نہ ہو۔” یہ وہ وصیت تھی جس نے ایک بیٹی کو "دخترِ مشرق” بنادیا۔ انہوں نے جیل کی تنہائیوں، سکھر کی تپتی ہوئی بیرکوں اور جلاوطنی کے دکھوں کو اس طرح سہا جیسے کوئی عبادت گزار اپنی تسبیح مکمل کرتا ہے۔
اپنی اس تصنیف میں وہ "زنجیروں” کا ذکر محض استعارے کے طور پر نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کے طور پر کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ آمریت نے ان کے ارادوں کو قید کرنے کے لیے لوہے کی بیڑیوں اور ہتھکڑیوں کا سہارا لیا، لیکن وہ ان آہنی زنجیروں کو اپنی استقامت سے موم کرتی رہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ "وہ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تو لگاسکتے ہیں لیکن میرے خیالات کو زنجیر نہیں پہناسکتے”۔
شہید بے نظیر بھٹو نے ان سماجی زنجیروں کو بھی کاٹ پھینکا جو ایک عورت کو قیادت سے روکتی تھیں۔ اسی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ 1988 میں انہوں نے تاریخ رقم کی اور نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بن کر اُبھریں۔ ان کا یہ منصب سنبھالنا اس قدامت پسندانہ سوچ کی شکست تھی جو خواتین کو حکمرانی کے لیے نااہل سمجھتی تھی۔
شہید بے نظیر بھٹو کی سیاست محض اقتدار کی ہوس نہیں تھی، بلکہ ایک ایسے نظریے کی جنگ تھی جہاں انسانی وقار کو اہمیت دی جائے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ "آپ انسان کو تو مار سکتے ہیں مگر اس کے نظریے کو نہیں”۔ یہی وجہ تھی کہ جب 2007 میں وہ طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تو فضا "ظلم کی زنجیریں ٹوٹیں گی” کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ کارساز کے دھماکوں نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی، مگر وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتی رہیں، کیونکہ وہ اپنی قوم کو اس کے حال پر تنہا نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔
بالآخر 27 دسمبر 2007 کی وہ شام آپہنچی جب لیاقت باغ راولپنڈی کی فضاؤں میں نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے انہوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ وہ گولی جو ان کے سینے میں اتری، وہ دراصل جمہوریت کے دل پر لگی تھی، لیکن بے نظیر نے مر کر بھی ثابت کردیا کہ "جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے”۔ آج وہ گڑھی خدا بخش کے خاموش قبرستان میں اپنے والد کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں، لیکن ان کی یادیں، ان کی تحریریں اور ان کا حوصلہ آج بھی مشرق کی ہر بیٹی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

#Benazirbhutto#DaughterofeastFormer Prime Minister of PakistanMarytred DayPPP Leader