دوسری برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر
سرزمین پاک اس لحاظ سے خوش قسمت کہی جاسکتی ہے کہ یہاں شروع سے ہی ایسی عظیم شخصیات معقول تعداد میں موجود رہی ہیں، جنہوں نے اتحادِ امت کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی، ان کا مطمح نظر ملک و قوم کی فلاح و بہبود رہا، انسانیت کی بہتری ان کی اوّلین ترجیح رہی۔ اس بناء پر عوام میں بھی ان کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک عظیم ہستی معروف ذاکر اور عالم دین علامہ طالب جوہری کی دوسری برسی آج منائی جارہی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ آپ کا وصال امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا، آپ کا خلا شاید ہی کبھی پُر ہوسکے۔ آپ کی ملک و ملت کے لیے گراں قدر خدمات کبھی بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ آپ امت مسلمہ کے اتحاد کے بہت بڑے عازم اور داعی تھے۔ اس کی خاطر آپ ساری زندگی مصروفِ عمل رہے۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے بھی آپ کی کوششیں اظہر من الشمس ہیں۔ حالات زندگی پر نگاہ دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ علامہ طالب جوہری 27 اگست 1939 کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مشہور عالم دین علامہ مصطفیٰ خاں جوہر تھے۔ علامہ طالب جوہری کو کئی برسوں سے پاکستانی علماء میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ کراچی کے نشتر پارک میں شام غریباں کی مجلس سے ان کی شہرت پاکستان اور دُنیا بھر میں پھیل گئی، اس مجلس کے سامعین میں مسلمانوں کے تمام طبقۂ ہائے فکر کے لوگ شامل تھے۔ علامہ طالب جوہری فن تقریر میں صاحب اسلوب تھے۔ ایک دل نشیں مقرر ہونے کے ساتھ آپ کی کئی جہتیں تھیں۔ آپ نے کئی کتابیں لکھیں، قرآن کی تفسیر لکھی اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ شاعر بھی باکمال تھے، آپ کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہوچکے، جن میں ”حرفِ نمو“، ”پس آفاق“ اور ”شاخ صدا“ شامل ہیں۔ ان مجموعوں میں آپ کی شاعری کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسلامی و آفاقی موضوعات پر مبنی آپ کی کتابیں دُنیا بھر میں پسند کی گئیں۔
آپ سے بے شمار شاگردوں نے فیض پایا۔ سچ ہے کہ آپ ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔آپ ایسی شخصیات کی کمی افرادِ معاشرہ کو بُری طرح کھٹکتی ہے۔ آپ عہد ساز شخصیت تھے، آپ کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا۔