اپوزیشن کا حکومت مخالف ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان!

اسلام آباد: حزب اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں نے آئندہ ماہ سے حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں حکومت کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جے یو پی کے اویس نورانی اور دیگر جماعتوں کے قائدین و رہنماؤں نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔
اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کے درمیان باہمی مشاورت کے بعد مولانا فضل الرحمان نے میڈیا کو اعلامیے کے نکات سے متعلق آگاہ کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بلاول بھٹو کی دعوت پر اپوزیشن کی اے پی سی ہوئی، جس میں اپوزیشن نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے الائنس تشکیل دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت کو دھاندلی کے ذریعے مسلط کیا گیا، اس لیے اجلاس نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں، 1973 کے آئین اور 18 ویں ترمیم قومی اتحاد کا مظہر ہے، اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اجلاس ملک میں صدارتی نظام کے ارادے کو رد کرتا ہے، صوبائی خودمختاری اور شہری آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اجلاس سیاسی انتقام پر گرفتار سیاسی رہنما اور کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اجلاس گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔
اعلامیے کے مطابق اپوزیشن ربراسٹمپ پارلیمنٹ سے کوئی تعاون نہیں کرے گی، موجودہ حکومت نے پارلیمان کو مفلوج کردیا ہے، اجلاس نے ٹروتھ کمیشن کا مطالبہ کیا، تباہ حال معیشت ملک کے لیے خطرہ بن چکی، میثاق جمہوریت پر نظرثانی کی جائے گی، متحدہ اپوزیشن ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کرتی ہے، اس تحریک میں وکلا، تاجر، کسان، عوام اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائے گا،
اپوزیشن کی جانب سے جنوری 2021 میں فیصلہ کُن لانگ مارچ کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت کے خلاف تحریک کے لیے نکل رہے ہیں، امید ہے عوام حکومت کے خلاف ہمارا ساتھ دیں گے۔
اے پی سی میں لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران سے نہیں ان کے لانے والوں سے ہے۔ اے پی سی جو بھی لائحہ عمل طے کرے گی (ن) لیگ اس کا بھرپور ساتھ دے گی۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے۔
بغرض علاج لندن جانے کے بعد پہلی مرتبہ باضابطہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے والے نواز شریف نے کہا کہ اختیار چند لوگوں کو دے دینا بددیانتی ہے، الیکشن کے نتائج میں تبدیلی نہ ہوتی تو بیساکھیوں پر کھڑی حکومت وجود میں نہ آتی، دکھ کی بات ہے معاملہ ریاست سے اوپر تک پہنچ چکا، ملک میں ہر ڈکٹیٹر نے اوسط نو سال حکومت کی، آئین پر عمل کرنے والے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے ووٹ سے جمہوری حکومت بننے پر ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں، ہماری تاریخ میں 33سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہوگیا، 73 سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، ریاستی ڈھانچہ کمزور ہونے کی بھی پروا نہیں کی جاتی، عوامی مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے، پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری بناکر رکھ دیا گیا ہے۔
نواز شریف نے حکومت کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ مل کر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے، خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بناکر رکھ دیا گیا ہے، سوچنا چاہیے کیوں ہمارے قریبی ممالک ہم پر اعتماد کرنا چھوڑ گئے ہیں، شاہ محمود قریشی نے کس منصوبے کے تحت بیان دیے جس سے سعودی عرب ناراض ہوا، بھارت نے کٹھ پتلی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا اور ہم احتجاج بھی نہ کرسکے۔
انہوں نے کہا دنیا تو کیا اپنے دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل نہ کرسکے، کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں، کیوں دنیا ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے، نالائق حکومت نے ہر معاملے پر یوٹرن لیا، کشمیری عوام پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے، ہماری خارجہ پالیسی ملکی مفادات سے متصادم نہیں ہونی چاہیے، سی پیک کے ساتھ بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا ہے جہاں کئی سال بیت جانے کے باوجود روزانہ مسائل کا سامنا ہے۔
(ن) لیگ کے قائد نے کہا کہ ملک بدامنی اور جرائم کا گڑھ بن چکا، قوم کی ایک بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلادیتا ہے، حکومت کی تمام ہمدردیاں متاثرہ بیٹی کے بجائے افسر کے ساتھ ہیں، ووٹ کو عزت نہ ملی تو پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا، آج ملک میں مہنگائی بہت آگے بڑٰھ چکی، آج بجلی اور گیس کے بل عوام پر بم بن کر گرتے ہیں، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والوں نے روزگار چھین لیا، آمر کے بنائے گئے ادارے نیب کو قائم رکھنا ہماری غلطی تھی، نیب کا ادارہ اپنا جواز کھو بیٹھا۔
اے پی سی سے خطاب کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم صرف حکومت گرانے کے لیے نہیں ملے، ہم حکومت نکال کر جمہوریت بحال کرکے رہیں گے، میثاق جمہوریت سے ہم آہنگی پیدا کی تھی، شرکاء اے پی سی میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں، ہم نے کوشش کی دو سال میں جمہوریت بچے۔
انہوں نے کہا کہ ناسمجھ سیاسی بونے سمجھتے ہیں وہ زیادہ ہوشیار ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن کی اے پی سی کے دوران اسمبلیوں سے استعفے اور سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تجویز دے دی۔
اے پی سی سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اب میں زبانی دعووَں پر یقین نہیں رکھتا، ہمیں اب زبانی باتیں نہیں کرنی، ہمیں تحریری بات کرنا ہوگی، آج میں واضح کرنا چاہتا ہوں آج ٹھوس بات کرکے اٹھنا ہوگا، ہمیں ہر طرح کی سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کردینا چاہیے، چاہے کوئی بیرونی صدر یا وزیراعظم بھی کیوں نہ آئے اس کا بھی بائیکاٹ کرنا ہوگا، آج اعلان کیا جائے کہ پارلیمنٹ کی ہر قسم کی قانون سازی کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم سمیت اسمبلیاں جعلی اور میرے نزدیک چیئرمین سینیٹ بھی جعلی ہے، اگر اسمبلیوں سے استعفے دینے اور سندھ اسمبلی توڑنے پر تیار ہیں تو آگے بڑھیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ اداروں سے بہت زیادہ تعاون ملنے کے باوجود حکومت ہر لحاظ سے بری طرح ناکام ہوچکی، 2018 کے الیکشن میں آرٹی ایس کیسے بند ہوا؟ تحقیقات کے لیے ہاؤس کی کمیٹی بنائی گئی لیکن کمیٹی نے سفر نہیں کیا، اگر کہوں کہ ملک میں جمہوریت نام کی ہے یہ بات غلط نہ ہوگی، ملک میں مختلف اوقات میں حادثے ہوئے جن سے جمہوریت ڈی ریل ہوئی۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر اندھا انتقام لیا جارہا ہے۔ احتساب کرنا ہوتا تو کابینہ میں بیٹھے لوگوں سے شروع کرتے، گندم اور چینی اسکینڈل کی ذمے دار یہی حکومت ہے، 10 سال کے قرضے ایک طرف اور ان کے دو سال کے قرضے ایک طرف پاکستان کے زرمبادلہ کا استعمال کرمنل طریقے سے ہورہا ہے، چینی پہلے برآمد اور پھر درآمد کی گئی، کورونا سے قبل ہی پاکستان کی معیشت کو شدید ضرب لگی، سلیکٹڈ وزیراعظم نے آفت زدہ لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دیا، قرضوں کے حصول کے باوجود مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور اے پی سی کے میزبان بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت کے بغیر معیشت اور معاشرے کو ہر طرف سے کمزور کیا جاتا ہے، کوشش کی تھی یہ ایونٹ بجٹ سے قبل ہو، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، عوام اس اے پی سی سے ٹھوس لائحہ عمل چاہتے ہیں، عوام چاہتے ہیں آئین کے مطابق ان کو حق دینے کا وعدہ پورا ہو، جمہوریت نہیں ہوگی تو عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا، دوسال کا پی ٹی آئی حکومت کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں ایوانوں کو آزاد کراکے ان کا قبضہ چھوڑنا پڑے گا، فورم جو بھی فیصلہ کرے گا پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہے، ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات میں نکلنا پڑے گا، عوام کے دروازے پر جاکران کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گا، عوام نئی نسل کے لیے ہمارے ساتھ مل کر جمہوریت کا مطالبہ کریں، معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، منتخب نمائندے نہ ہونے سے عوام کو نہیں سنا جاتا، بارشوں اور سیلاب کے بعد عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔

APCOppositions