اسلام آباد: فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا ہے اور انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں۔
اپنی ٹویٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس قریباً ایک ارب 24 کروڑ 20 لاکھ روپے کے فراڈ کی کہانی ہے جو حجم کے اعتبار سے پاناما پیپرز کیس سے بھی بڑی ہے، اس کی ابتدا 2000 میں اس وقت ہوئی جب نیب حکام نے حدیبیہ پیپرز کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز، شہباز شریف اور ان کے سیاسی وارث حمزہ شہباز بھی اس کے مرکزی کردار ہیں، اسحاق ڈار نے اس فراڈ میں شریف خاندان کی معاونت کے لیے غیرملکی کرنسی کے جعلی بے نامی اکاؤنٹس کھلوائے۔ پکڑے جانے پر اسحاق ڈار وعدہ معاف گواہ بنے اور انہوں نے متعلقہ حکام کو اپنا تفصیلی بیان بھی ریکارڈ کروایا مگر بعد میں یہ کہہ کر کہ ان سے یہ بیان زبردستی لیا گیا، اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز پرائیویٹ لمیٹیڈ کے ریکارڈ کی پڑتال کے دوران نیب اسلام آباد کے تحقیق کاروں پر یہ انکشاف ہوا کہ 97-1996 اور 98-1997 کے دوران کمپنی کے کھاتوں میں بالترتیب 30.499 ملین اور 612.273 ملین روپے بطور شیئر ڈیپازٹ ظاہر کیے گئے ہیں۔وہ کمپنی جس کا اس سرمایہ کاری سے قبل حجم محض 95.7 ملین اور مجموعی خسارہ 809.834 ملین روپے تھا، میں اتنی بھاری رقوم کی آمد نے تحقیق کاروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا چنانچہ نیب نے 1999 کے نیب آرڈیننس کے تحت معاملے کی پڑتال کے احکامات صادر کردیے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کی تحقیقات سے پتا چلا کہ حدیبیہ ملز انتظامیہ جو میاں محمد شریف، شمیم اختر، نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف، مریم صفدر، صبیحہ عباس، حسین نواز اور حمزہ شہباز پر مشتمل ہے کی تجوریوں میں بھاری بھرکم غیرقانونی سرمایہ موجود ہے اور وہ اس دولت کے ذرائع بتانے سے قاصر ہیں۔ ان لوگوں نے منی لانڈرنگ کے لئے 1992 کے دی پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کی مختلف شقوں کا سہارا لے کر دھوکے سے غیر ملکی کرنسی کے مختلف جعلی کھاتوں میں اپنی دولت جمع کروائی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ جب جعلی اکاؤنٹس کا بھانڈا پھوٹا تو انہوں نے یہ پیسہ حدیبیہ پیپر ملز کے اکاؤنٹس میں براہِ راست ڈالنے کا فیصلہ کیا، اس مقصد کی خاطر انہوں نے اس مل کے اکاؤنٹس کے لیے اس بیرونی کرنسی کی مالیت کے برابر مختلف ڈالر ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ٹی ٹیز) کا بندوبست کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ابھی شہباز شریف اور مریم نواز کی رقوم پاکستان سے باہر بھیجی گئیں، ایک ارب 24 کروڑ 20 لاکھ روپے اچانک شریف فیملی کے اثاثوں میں آگئے یہ رقم پاناما اسکینڈل سے بھی بڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے یہ بھی نشان دہی کی کہ مذکورہ واردات کے ذریعے شریف خاندان کے ان نامزد افراد نے منی لانڈرنگ اور اثاثے چھپانے جیسے گناہ ہی نہیں کیے بلکہ یہ بہت سے ریاستی و حکومتی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں جب یہ معاملہ احتساب عدالت کے روبرو آیا کیس کے دوران ہی شریف فیملی نے پرویز مشرف حکومت کے ساتھ ڈیل کی اور سعودی عرب چلے گئے، 2008 اور 2009 میں معاملہ دوبارہ اٹھایا گیا لیکن پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے مک مکا نے کیس پھر رکوا دیا اور کہا گیا کیس نہیں چل سکتا کیونکہ اس پر چیئرمین نیب کے دستخط نہیں ہیں۔
وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ شریف خاندان نے کارروائی کو لاہور ہائی کورٹ کے روبرو چیلنج کیا تو 2 رکنی بینچ نے 1،1 سے منقسم فیصلہ سنایا، یوں معاملہ ریفری جج کے پاس چلا گیا جس نے مقدمے کی بندش کا فیصلہ کرنے والے ڈویژن بینچ کے جج کی رائے کی حمایت کا فیصلہ دیا اور مقدمہ 2014 میں بند کردیا گیا، دلچسپ بات یہ تھی کہ اتنی تفصیلی تفتیش کے بعد اس کیس کا ایک دن بھی عدالتی ٹرائل نہیں ہوا، جس جج نے کیس بند کرنے کا فیصلہ دیا، پاناما اسکینڈل میں انکشاف ہوا کہ ان جج صاحب کے اپنے اثاثے بھی بیرون ملک تھے، بدقسمتی سے ان جج صاحب کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اب کچھ نئے حقائق بھی سامنے آئے ہیں جن پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا ہے، امید ہے عدلیہ ان ججوں پر بھی کارروائی کرے گی جنہوں نے شریف فیملی کی معاونت کی، انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں، پاکستان کا مستقبل قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔