اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کے ملزم احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے فوری نکالنے کا حکم دے دیا۔
ڈینیل پرل قتل کیس کے ملزم احمد عمر شیخ کی رہائی کے فیصلے کے خلاف حکومت سندھ کی نظرثانی کی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ احمد عمر شیخ عام ملزم نہیں، دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے، رہا کیا تو غائب ہو جائے گا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ افواج کی قربانیوں سے انکار نہیں لیکن ہم آئین کے پابند ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عمر شیخ پر الزام ڈینیل پرل کے اغوا کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمرشیخ دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث ملزم ہے، اس کو رہا نہ کیا جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا یہ ثابت ہوا کہ عمر شیخ دہشت گردی میں ملوث رہا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کے پاس اختیار ہے کہ خطرناک ملزمان کو حراست میں رکھ سکے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نے عمر شیخ کو پہلے ہی ایک ماہ تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا، عدالت آپ کے غیر قانونی اقدامات کو قانونی قرار نہیں دے سکتی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ تاریک دور نہیں کہ ملزم 18 سال کے بعد بھی قید میں رہے جب کہ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ڈینیل پرل قتل کی ویڈیو میں لاش کا چہرہ دکھائی نہیں دیا۔
اس موقع پر عدالت نے احمد عمر شیخ کو فوری ڈیتھ سیل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ دو روز تک عام بیرک میں رکھا جائے، اس کے بعد سخت سیکیورٹی میں سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جائے، جہاں اہل خانہ صبح 8 سے شام 5 بجے تک ملزم کے ساتھ رہ سکیں گے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ احمد عمر شیخ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہوگی جب کہ خاندان کو سرکاری خرچ پر رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے گی۔
ڈینیل پرل قتل کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔