افغان خلاف ورزی، پاکستان کا دوٹوک مؤقف

دانیال جیلانی

دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے گزشتہ روز ہفتہ وار پریس بریفنگ میں افغانستان میں جاری صورت حال اور پاک افغان سرحدی کشیدگی کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ ترجمان نے واضح کہا کہ افغانستان نے سیز فائر کی پاسداری نہیں کی اور پاکستان پر دہشت گرد حملے جاری رہے، جس کے بعد جنگ بندی ختم ہوچکی ہے۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان کے موقف کو واضح کرتا، بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک اہم پیغام ہے کہ پاکستان نے ہر مرحلے پر نیک نیتی سے امن کے لیے اقدامات کیے جب کہ دوسری طرف افغان سرحد پار سے جاری دہشت گردی اور عدم تعاون نے امن کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ سیز فائر یا جنگ بندی عموماً دو متحارب فریقوں کے درمیان روایتی جنگ بندی کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان کے موقف کے مطابق پاک افغان جنگ بندی کا مقصد محض روایتی تصادم کو روکنا نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصد افغانستان سے پاکستان مخالف دہشت گرد حملوں کی روک تھام تھا۔ پاکستان نے نہ صرف سرحد کی نگرانی میں اضافہ کیا بلکہ متعدد مواقع پر افغان حکام کے ساتھ رابطے میں رہ کر امن قائم رکھنے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے، افغانستان کی جانب سے اس عزم کی پاسداری نہیں کی گئی اور سرحد پار سے دہشت گرد حملے جاری رہے، جس کی وجہ سے پاکستان نے اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے واضح موقف اختیار کیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ میں افغانستان میں مختلف دہشت گرد گروہوں، بالخصوص فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے، کیونکہ یہ عالمی سطح پر ثابت کرتا ہے کہ افغانستان کے کچھ علاقوں میں دہشت گرد تنظیمیں آزادانہ طور پر کام کررہی ہیں اور انہیں افغان حکومت سے تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم عالمی برادری کے شانہ بشانہ ہیں مگر افغان حکومت کی غیر سنجیدگی اور سرحدی کشیدگی نے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
سیز فائر کی ناکامی کے نتیجے میں پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کے دفاع کے لیے اضافی اقدامات کرنے پڑے ہیں۔ سرحدی بندش، تجارت کی معطلی اور سرحدی نگرانی میں اضافہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں ضروری اقدام تھا۔ پاکستان نے یہ واضح کردیا کہ سرحدی کشیدگی اور دہشت گرد حملوں کا واحد مقصد پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے اور اس کے لیے ہمہ وقت چوکس رہنا لازمی ہے۔ پاکستان نے سیز فائر کے دوران مکمل نیک نیتی کا مظاہرہ کیا۔ افغان سرحد پار سے دہشت گرد حملوں کے باوجود پاکستان نے امن قائم رکھنے اور افغان عوام کی مدد فراہم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان نے افغان عوام کے لیے امدادی قافلے بھی روانہ کیے، تاہم افغان حکومت نے انہیں وصول کرنے سے انکار کیا۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ پاکستان کا مقصد محض جارحانہ کارروائی نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور امن قائم رکھنے کی کوششیں بھی شامل تھیں۔ افغانستان کی غیر سنجیدگی اور دہشت گرد حملوں کی روک تھام میں ناکامی عالمی برادری کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان کا موقف شفاف اور واضح ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف پُرامن طریقے سے کارروائی کرنے کے خواہاں تھے مگر افغانستان کی غیر ذمے دارانہ پالیسیوں نے پاکستان کو دفاعی اقدامات کی جانب مجبور کیا۔ یہ مسئلہ صرف دوطرفہ تعلقات کا نہیں بلکہ خطے کی سلامتی اور استحکام کا بھی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے دعووں کو بھی رد کیا اور واضح کیا کہ پاکستان نے اپنی پالیسیوں میں شفافیت اور احتیاط برتی ہے۔ عالمی میڈیا میں پھیلائی جانے والی بعض غلط خبریں پاکستان کی پالیسی اور موقف کے بارے میں عوام میں غلط فہمی پیدا کرسکتی ہیں، لیکن پاکستان نے ہر معاملے میں شفافیت اور ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ مزید برآں، ترجمان نے بھارت کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کی غیر قانونی اور دہشت گرد سرگرمیوں کی موجودگی پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے اپنی سرحدوں اور قومی سلامتی کے دفاع میں چوکس رہا ہے اور کسی بھی خطرے کا مؤثر جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ بھارت میں جوہری شعبے میں نجی سرمایہ کاری اور سابقہ ریکارڈ بھی پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے، کیونکہ امن اور استحکام کے لیے ایسے معاملات کی شفاف نگرانی ضروری ہے۔
پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر مضبوط بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے اقدامات کو درست طور پر سمجھا جائے۔ پاکستان نے دہشت گردی، سرحدی کشیدگی اور انسانی ہمدردی کے معاملے میں ہمیشہ ذمے دارانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ افغان سرحد پر جاری دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے اپنی خودمختاری اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کیے ہیں۔ یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان نہ صرف امن کا خواہاں ہے بلکہ اپنے عوام اور ملک کی سلامتی کے تحفظ میں بھی مکمل سنجیدگی سے کام کررہا ہے۔
سیز فائر کی ناکامی اور جنگ بندی کے خاتمے کے بعد پاکستان نے یہ واضح کردیا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کسی بھی قسم کی برداشت نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کا یہ موقف ملکی سلامتی، عوام کے تحفظ اور خطے میں استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ پاکستان نے ہر مرحلے پر امن کی کوششیں کیں، افغان حکومت کو اعتماد میں لیا، امدادی قافلے بھی روانہ کیے، مگر افغانستان کی غیر سنجیدگی اور سرحد پار سے دہشت گرد کارروائیاں اس امن عمل کو ناکام بنانے کا سبب بنیں۔ پاکستانی عوام اور عالمی برادری کے لیے یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ اقدامات کسی جارحیت یا عدم تعاون کے سبب نہیں بلکہ قومی سلامتی، امن اور استحکام کے لیے لازمی ہیں۔ آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی کوششوں میں نیک نیتی سے کام کیا، دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کے ساتھ تعاون کیا اور افغان سرحد پر جاری خطرات کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ افغان حکومت کی غیر سنجیدگی اور سرحدی دہشت گرد حملوں نے پاکستان کو دفاعی اقدامات کرنے پر مجبور کیا، جو نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی اور قومی فریضے کے مطابق بھی ہیں۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ قومی سلامتی، امن قائم رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے گرد گھومتی رہی ہے اور یہ موقف مستقبل میں بھی خطے میں استحکام اور امن کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا

AfghanistanPakistan’s firm stanceviolation