زاہد حسین
سید کمال کے فن کے معترفین کی کمی نہیں، اُنہوں نے پاکستانی فلموں میں اپنی اداکاری کے بہترین نقوش چھوڑے ہیں۔
سید کمال نہ صرف بہترین اداکار تھے، بلکہ وہ ایک اچھے فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نویس بھی تھے۔ انھوں نے فلم اور پاکستان ٹیلی وژن کے بے شمار ڈراموں میں بھی کام کیا۔ سید کمال نے جس شعبے میں کام کیا، اس میں اپنی بہترین پرفارمنس سے اپنا نام بنایا۔ وہ 27 اپریل 1937 کو بھارت کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن ہی سے فلموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا، یہ شوق انہیں قیام پاکستان سے قبل بمبئی لے گیا، جہاں سے انھوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ’’باغی سردار‘‘ تھی، جس میں انہوں نے ایک چھوٹا کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا۔ پاکستان آنے کے بعد سید کمال کی ملاقات ہدایت کار شباب کیرانوی سے ہوئی۔ شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کاسٹ کرلیا۔ یہ فلم زیادہ بزنس نہ کرسکی، تاہم یہاں سے انہیں پاکستانی فلمی صنعت میں آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
سید کمال نے فلموں میں سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کردار ادا کیے اور اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اداکار کمال نے اپنی فلمی کیریئر میں 80 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے خود کو اردو فلموں تک محدود نہیں رکھا اور بہت سی پنجابی اور ایک پشتو فلم میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سید کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ وہ بعض فلموں کے فلم ساز بھی تھے اور ہدایت کار بھی۔ بحیثیت ہدایت کار اور فلمساز ان کی مشہور فلموں میں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ سید کمال نے پی ٹی وی پر ایک شو بھی کیا تھا، جسے ناظرین نے بہت پسند کیا تھا۔ سید کمال نے مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی کردار ادا کیا۔ اس ڈرامے میں بھی ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ 1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال بھی میدانِ سیاست میں اترے۔ اس غیرجماعتی انتخابات میں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس انتخابی شکست اور اس وقت کے سیاسی حالات سے وہ دل برداشتہ ہوگئے اور ان تمام تر واقعات کو بنیاد بنا کر ایک فلم بنائی۔ اس فلم کا نام سیاست تھا۔ بدقسمتی سے یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی اور باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئی۔ سید کمال نے ہمت نہ ہاری اور انہوں نے قلم اٹھالیا اور اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی۔
سید کمال کو اپنی بہترین فلمی خدمات کے عوض تین بار فلم کا سب سے بڑا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ساتھ ہی انہوں نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ سید کمال کی شکل و صورت نامور بھارتی اداکار راج کپور سے کافی ملتی جلتی تھی اس لیے انہیں پاکستان کا راج کپور بھی کہا جاتا تھا۔ جب سید کمال کی فلم توبہ ریلیز ہوئی تو ان کی اداکاری کو دیکھتے ہوئے فلم بینوں نے اُنہیں پاکستان کا راج کپور کہنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اپنے وقت کی مقبول اداکاراؤں شمیم آراء، دیبا، زیبا، نسیمہ خان، نشو، ممتاز، اور روزینہ وغیرہ کے ساتھ کئی یادگار فلموں میں کام کیا۔ ایک پنجابی فلم پر بیک وقت انہیں بہترین فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار کا ایوارڈ حاصل دیا گیا۔ صحت کی خرابی کے باعث سید کمال ایک طویل عرصے تک فلم نگری اور ٹیلی وژن سے دور رہے۔ انہوں نے ایک لمبے عرصے تک ناسازی طبع کا سامنا کیا اور اخر اس طویل علالت کے بعد یکم اکتوبر 2009ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 75 برس تھی۔ ان کے انتقال سے پاکستانی فلمی صنعت میں منفرد اداکاری کا ایک اہم باب اپنے اختتام کو پہنچا۔