وہ لاہور کی ایک خاموش صبح تھی، جب ایک پنچ ستارہ ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں ایک ٹیکسی آن کر رُکی۔
اور اس میں سے ایک بوڑھا، لمبا چوڑا آدمی، جس نے ٹراؤز پہن رکھا تھا، اور اوپر ٹی شرٹ تھی، جس پر کوٹ چڑھا تھا، نیچے اترا۔
اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ وہ کبھی تو چھڑی ٹیک کر چلتا، کبھی اس کے بغیر چلنے کا جتن کرتا۔ اس کی بڑی سی عینک کے پیچھے سے جھانکتی آنکھوں میں، اس کی ہلکی سی سفید داڑھی میں، سوال سننے، جواب دینے میں، الغرض اس میں ہونے میں ایک خاص نوع کا دبدبہ تھا۔
لاہور، جو علم و ادب کا عشروں سے مرکز ہے، جو ایک عشق ہے، ادھر اس کے ایک ہوٹل میں، ایک بڑے روزنامے کی جانب سے اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، دنیا بھر سے مندوبین مدعو تھے، روس سے لڈمیلا آئیں، برطانیہ سے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز، چین، ازبکستان اور بنگلادیش سے بھی اسپیکرز مدعو تھے۔
لاہور تو پورا وہاں سانس لیتا تھا، انتظار صاحب اور مستنصر حسین تارڑ جو موجود تھے۔
اور اب عبداللہ حسین کا ظہور ہوا تھا۔
انھوں نے ایک سیشن کی صدارت کی، اور اپنے صدارتی خطبے میں کہا:
"آج خاصی سیر حاصل گفت گو ہوئی، (مسکرائے) البتہ اس لفظ سیر حاصل کا مطلب مجھے نہیں پتا!”
لوگ جی کھول کر ہنسے۔ اور ہنستے رہے۔ وہ ان کے رعب میں تھے، اور ان کی ہنسی کا ساتھ دے کر مطمئن ہونا چاہتے تھے۔
وہ ٹیکسی میں آئے تھے، اور اس نوع کی واپسی پر مطمئن نہ تھے، تو کہلوا بھیجا، "آپ نے لاکھوں خرچ کرکے روس سے اسپیکرز بلوا لیے، ہماری واپسی کے لیے گاڑی کا تو انتظام کریں، میں تو آیا بھی ٹیکسی پر تھا۔”
سب سانس روکے انھیں سنتے تھے۔
باہر درختوں پر بیٹھے پرندے بوڑھے ہوگئے۔
میں جو تب پریشان، فربہہ اور بوکھلایا ہوا تھا، چند برس بعد ان کا ایک طویل انٹرویو کرنے والا تھا۔
اور تب اس رعب اور دبدبے کو میں یوں محسوس کرنے والا تھا، جیسے سمندر میں اترنے والے پانی کو محسوس کرتا تھا،
پانی جو بے پناہ ہو، اور ہر سمت ہو، اور بے انت ہو۔
اداس نسلیں بھی ایک سمندر ہے، اور ہم اس میں اتر چکے ہیں۔
اور اب گھلتے جارہے ہیں۔ نمک کے آدمی کی طرح۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر طبع کتاب: کہانی سے ملاقاتیں