اوساکا: کیا دانت دوبارہ اُگ سکتے ہیں، جاپان سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے ایک بہت اچھی خبر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تیار کردہ دوا دانتوں سے محروم افراد میں دوبارہ نیا دانت اگاسکتی ہے۔ تجربہ گاہی آزمائش کے بعد اگلے سال یہ دوا انسانی آزمائش کا حصہ بن سکے گی۔
اوساکا میں واقع میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے کِٹانو اسپتال کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جانوروں پر آزمائش سے بہت حوصلہ افزا نتائج ملے ہیں۔ انسانوں پر فیزتھری ٹرائل اگلے سال جولائی سے شروع ہوسکتا ہے اور اس عشرے کے آخر تک یہ دوا مارکیٹ میں عام دستیاب ہوگی تاہم یہ انسانی تجربات اور ان کے نتائج سے مشروط ہوگی۔
یہ دوا بطورِ خاص یو ایس اے جی ون، نامی پروٹین کو روکتی ہے۔ انہوں نے چوہوں پرغور کیا تو معلوم ہوا کہ یوایس اے جی ون نامی پروٹین بنانے والے جین کی عدم موجودگی میں ان میں ایک اضافی دانت اگنے لگا۔ پھرمعلوم ہوا کہ یہ پروٹین دانتوں کی افزائش روکتا ہے۔ اسے بند کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی تیار کی گئی ہے جو کسی مضر اثر کے بغیر یوایس اے جی ون کا راستہ روکتی ہے۔
جاپانی ٹیم ایک عرصے سے اس پر غور کررہی ہے اور 2021 میں جانوروں پر تجربات میں بہت کامیابی ملی تھی، لیکن سب سے پہلے اسے جینیاتی نقائص والے ان مریضوں پر آزمایا جائے گا جو دانتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت اینوڈونشیا کہلاتی ہے۔ ماہرین پُرامید ہیں کہ 2030 تک مجاز ادارے اسے استعمال کی اجازت دے دیں گے اور سب سے پہلے دو تا 6 برس کے بچوں کو یہ دوا دی جائے گی۔
ماہرین کا خیال ہے تھوڑٰی تبدیلی کے بعد اسے ان بوڑھے افراد پر آزمایا جائے گا جو اپنے دانتوں کا دوسرا سیٹ بھی گنوادیتے ہیں۔