مہروز احمد
آج پاکستان سمیت دُنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ہر سال یہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ بچوں کے حقوق، ان کی فلاح و بہبود، تعلیم، تحفظ اور روشن مستقبل کو یقینی بنایا جائے۔ یہ دن اس بات کی یاد دہانی ہے کہ بچے کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کی نشوونما و پرورش میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، بچوں کی بھلائی، عزتِ نفس، صحت اور تعلیم کا خیال رکھنا صرف ایک اخلاقی ذمے داری ہی نہیں بلکہ ایک پائیدار اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بھی ہے۔
بچوں کا عالمی دن منانے کا مقصد صرف ایک رسمی تقریبات کا انعقاد نہیں بلکہ دنیا کے بڑے اور چھوٹے ممالک میں بچوں کے حقیقی مسائل کو سامنے لانا ہے۔ چاہے وہ غربت ہو، بھوک ہو، تعلیم کا فقدان ہو، چائلڈ لیبر ہو، یا بچوں پر ہونے والے کسی بھی قسم کے تشدد کا مسئلہ ہو— یہ دن ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہم کس حد تک اپنے ان چھوٹے فرشتوں کی ذمے داری پوری کررہے ہیں۔
بچے کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان میں وہ توانائی، تخلیقی صلاحیت اور معصومیت ہوتی ہے جو دنیا میں مثبت تبدیلیاں لاسکتی ہے۔ اگر بچے محفوظ، صحت مند، تعلیم یافتہ ہوں اور انہیں اعتماد اور محبت کا ماحول ملے تو وہ بڑے ہوکر نہ صرف خود ایک اچھے انسان بنتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک درخت کے مستقبل میں مضبوط ہونے کا دارومدار اس کی پہلی نگہداشت اور کھاد پانی پر ہوتا ہے، اسی طرح بچوں کی ابتدائی تربیت، ماحول اور مواقع ہی ان کی شخصیت سازی کی بنیاد بنتے ہیں۔
اگرچہ ٹیکنالوجی اور ترقی کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی کروڑوں بچے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں بچے بھوک سے مرتے ہیں، بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، پڑھ نہیں سکتے، کھیل نہیں سکتے اور بعض کو اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ چائلڈ لیبر ایک سنگین جرم ہے لیکن غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ جنگ زدہ ممالک میں بچوں کی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ انہیں نہ صرف اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے بلکہ ذہنی صدمات ان پر زندگی بھر کے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ ان حالات میں بچوں کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر بچے کو امن، تحفظ اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
اقوامِ متحدہ نے 1989 میں بچوں کے حقوق کے کنونشن کی منظوری دی، جس میں دنیا بھر کے بچوں کے بنیادی حقوق واضح کیے گئے۔ ان میں شامل ہیں: زندگی کا حق، تعلیم کا حق، صحت اور علاج کا حق، تشدد، استحصال اور بدسلوکی سے حفاظت کا حق، آزادیِ اظہار اور شناخت کا حق، مساوات اور امتیاز کے بغیر زندگی گزارنے کا حق۔
یہ حقوق محض کاغذی نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ ہر ملک اور ہر معاشرہ کی ذمے داری ہے کہ ان کو عملی شکل دے۔ بچوں کے عالمی دن کے مقاصد میں سب سے اہم مقصد ہر بچے تک معیاری تعلیم پہنچانا ہے۔ تعلیم وہ روشنی ہے جو جہالت کے اندھیروں کو ختم کرتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ بچہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتا بلکہ اپنے خاندان، معاشرے اور ملک کو بھی ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی دنیا میں لاکھوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ بعض کو غربت آگے بڑھنے نہیں دیتی، بعض کو گھر والے تعلیم سے زیادہ مزدوری اہم سمجھتے ہیں اور بعض علاقوں میں اسکول ہی موجود نہیں۔ بچوں کی بہتر نشوونما میں والدین اور اساتذہ کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ والدین بچے کی پہلی درس گاہ ہیں۔ ان کی محبت، توجہ اور تربیت بچے کی شخصیت کی بنیاد رکھتی ہے۔ اگر والدین بچوں کو اعتماد دیں، ان کی بات سنیں اور انہیں غلطی سے سیکھنے کا موقع دیں تو یہ بچے بڑے ہوکر مضبوط اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان بنتے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ بچے کی ذہنی، اخلاقی اور سماجی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک اچھا استاد بچے میں سیکھنے کا شوق پیدا کرتا، اس کی صلاحیتوں کو نکھارتا اور اسے آگے بڑھنے کی راہ دکھاتا ہے۔
بچوں کا عالمی دن مناتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم بچوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ کیا ہم انہیں وہ ماحول فراہم کررہے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ بچوں پر جسمانی یا ذہنی تشدد کو مکمل طور پر ختم کریں۔ انہیں صاف ستھرا ماحول اور صحت کی سہولتیں فراہم کریں۔ بچوں کے لیے محفوظ کھیل کے مقامات مہیا کریں۔ہر بچے کو اسکول تک رسائی ممکن بنائیں۔ چائلڈ لیبر کے خلاف آواز بلند کریں۔ بچوں کی رائے، خیالات اور احساسات کو اہمیت دیں۔ یہ اقدامات نہ صرف بچوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہیں بلکہ ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بھی۔
بچوں کا عالمی دن صرف ایک دن نہیں بلکہ انسانیت کے نام ایک یاد دہانی ہے کہ بچے ہمارا کل ہیں اور انہیں آج بہترین سہولتیں، محبت، تحفظ اور مواقع دینا ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم بچوں کی دیکھ بھال میں ذرا بھی کوتاہی کریں گے تو مستقبل کمزور ہوجائے گا۔ لہٰذا آئیے ہم سب یہ عہد کریں کہ ہر بچے کے حقوق کا احترام کریں گے، ان کی تعلیم اور تحفظ کو اولین ترجیح دیں گے اور انہیں وہ دنیا دیں گے جہاں وہ کھل کر سانس لے سکیں، مسکرا سکیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں۔