پانچویں جماعت کے امتحان سے فارغ ہوکر پہاڑوں پر کھیل کود جاری تھا۔ سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع اپنے آبائی گاؤں ٹنڈو رحیم کئی ماہ سے دادو اور سہون سے آنے والے دونوں زمینی راستے کئی ماہ سے کٹے ہوئے تھے۔ بس ایک ہی راستہ تھا وہ تھا پانی کا۔
جوہی اور بھان سید آباد سے کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر موجود بچاؤ بند سے پانی شروع ہوتا تھا، جو چھنی تک دریا کی صورت میں بہہ رہا تھا۔ اور جوہی یا پھر بھان سید آباد سے چھنی تک جانے کا ذریعہ صرف کشتیوں کا سفر تھا۔ یہ کم از کم چھہ آٹھ گھنٹے کا سفر تھا۔ ذکر ہو رہا ہے 1976 کے خونی سیلاب کا جس کے اثرات ایک برس بیت جانے کے باوجود جاری تھے۔ سیلاب کے دنوں میں ہی والد صاحب عمرہ کرنے سعودی عرب روانہ ہوئے تھے۔ اس زمانے میں عمرے پر جانے والے اکثر پاکستانی غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں پیسہ کمانے کے لئے رک جاتے تھے۔ چونکہ سعودی فرمان روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز ( جن کے نام سے کراچی کی مشہور شاہراہ فیصل منسوب ہے) کے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے دوستانہ مراسم تھے کیونکہ لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد سعودی حکام نے پاکستانیوں کو خاص رعایت دے رکھی تھی۔ خصوصی طور پر پاکستانی محنت کش بغیر ویزا کے بھی وہاں گذارا کر رہے تھے حالانکہ تب تک شاہ فیصل کے قتل کے بعد نئے فرماں روا شاہ خالد بن عبدالعزیز نے اصلاحات کا اعلان کر رکھا تھا لیکن پاکستانیوں کے بارے میں نئے فرماں روا کی پالیسیاں بھی نرم تھیں۔
والد صاحب نے ایک سال تک پیسے کما کر گاؤں کے ہی اس مقامی ویزا ایجنٹ سے رابطہ کیا کہ میرے اہل خانہ کو بھی عمرہ ویزا پر سعودی لایا جائے۔ پیسے بھی ایڈوانس ادا کردئیے تھے۔ ہمارا پاسپورٹ تو 1975 سے والد صاحب کے ساتھ بنا ہوا تھا۔ پاسپورٹ بننے کا قصہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔
والد صاحب اپنے پورے اہل خانہ یعنی اہلیہ اور دو بچوں (میں اور میری بہن) کے ہمراہ صبح چھہ بجے والی ٹرین میں سوار ہوکر باندھی سے نواب شاہ پہنچے۔ اس سفر کا مقصد فوٹو کھنچوانا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواب شاہ کے چکرا بازا میں دکانوں کے باہر دروازوں پر ایک بڑا سیاہ کپڑا لگا ہوا تھا اور اس کے ساتھ لکڑی کا چھوٹا سا اسٹول یا پھر بنچ رکھا ہوا تھا۔ ایک دکان پر ابا لے گئے ہم دونوں بچوں کو والدہ کے ساتھ بٹھایا، ہمارے سامنے چار ٹانگوں پر کھڑا لکڑی کے ڈبے میں بند کیمرہ تھا اور لکڑی کا ڈبہ بھی کپڑے میں ڈھانپا ہوا تھا گویا تصویر نکالتے وقت فوٹو گرافر اپنا سر بھی کپڑے میں ڈال دیتا تھا۔ بنچ پر بٹھا کر والدہ کے ساتھ ہماری تصویر نکالی پھر والد کی تصویر نکالی اور بعد میں پانی کی بھری ہوئی بالٹی میں تصاویر ڈال دیں۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھومنے پھرنے کے بعد ہم نے وہ تصاویر اٹھا لیں اور ریل گاڑی سے واپس باندھی پہنچے۔ قدیمی دور کے لکڑی والے کیمرہ کی یہ تصاویر ہمارے پاسپورٹ کی زینت بنی اور ہم سعود عرب جانے کا سفر باندھ رہے تھے لیکن والد نے سعودی جانے سے قبل ہمیں اپنے آبائی گاؤں ٹنڈو رحیم چھوڑنا مناسب سمجھا تاکہ بچہ وہاں پانچویں جماعت کا امتحان بھی پاس کرلے اور پھر سعودی عرب میں پیسہ کما کر بیوی بچوں کو سعودیہ بلا لوں گا۔ ایک غریب محنت کش کا شاید ہی سب سے بڑا خواب ہو۔
یہ جون 1977 کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ ایک دن اچانک کہیں سے پیغام ملا کہ ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن صبح سویرے کی فلائٹ پر کراچی ایئر پورٹ پہنچنا ہے۔ ٹکٹ آ چکے تھے۔ یہ تو اتنا بڑا چیلنج تھا کہ بہت مشکل لگ رہا تھا۔ چونکہ تمام زمینی راستے بند تھے۔ سارا مسئلہ دادو یا پھر سہون کی شاہراہ تک پہنچنے کا تھا۔ چچا تگیل کے ساتھ اسی رات گئے ہم نے اونٹوں پر سفر شروع کیا۔ ٹنڈو رحیم سے چھنی اتنا دور تو نہیں تھا لیکن پھر بھی پہنچتے پہنچتے صبح ہو چکی تھی۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہا تھا ایک طرف کراچی دیکھنے کا شوق تو دوسری طرف سعودیہ جاکر والد سے ملنے کا خواب۔ لیکن صحرا کے سفر میں اونٹ کے ہچکولوں سے پیٹ میں درد پڑ چکا تھا۔ صبح کو مزید مشکل سفر شروع ہو چکا تھا کیونکہ اب ہم ایک لمبی چوڑی کشتی میں سوار ہو چکے تھے۔ کشتی میں پورا گھر سجا ہوا تھا۔ برتن بھی تھے تو باورچی خانہ بھی بنا ہوا تھا۔ کیونکہ کشتی میں ہی کھانا بھی پک رہا تھا۔ کشتی کے مسافروں نے مل کر ایک بڑی مچھلی خرید لی تھی۔ کشتی کا سفر بھی عجیب تھا اور ڈرانے والا۔ یوں سمجھیں ہر وقت یہ ہی دعا نکل رہی تھی کہ “ میری کشتی پار لگا دینا “ وجہ یہ تھی کہ کشتی ہوا کے رخ پر ہوا کی مرضی پر چل رہی تھی۔ ملاح نے سفید رنگ کا بادبان کھول رکھا تھا۔ اب کشتی کی مرضی جہاں بھی لے جائے لیکن ملاح اپنے چپو کے ذریعے رخ بدلاتا رہتا تھا۔ چھنی سے بھان سید آباد اتنا ہی فاصلہ تھا کہ گاڑی کے ذریعے ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے لیکن ہمیں کشتی میں پورا دن لگ چکا تھا۔
اب سفر کا تیسرا مرحلہ دوسری رات کو شروع ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں سہون جامشورو روڈ کی حالت بہت ہی بدترین تھی۔ جامشورو تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے تھے۔ اور پھر کراچی کی بس حیدر آباد کے پٹھان کالونی سے نکلتی تھی۔ یہ پوری مسافت طے کرنے کے بعد جب کراچی جانے والی بس پر سوار ہوئے تو بہت رات بیت چکی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ صبح سات آٹھ بجے ہم کراچی ایئر پورٹ پہنچے جہاں ہمیں یہ بد نصیب خبر ملی کی ایئر پورٹ کے لاؤڈ اسپیکر پر ہمارے نام پکارے جا رہے تھے مگر ہم موجود نہیں تھے، گویا ہماری فلائٹ مِس ہو چکی تھی۔ ویزا ایجنٹ سے پیغام ملا کہ ایک دو روز ایئر پورٹ کے آس پاس ہی گزاریں۔ کسی وقت بھی آپ کو دوبارہ ٹکٹ مل سکتے ہیں۔ اب ہم کیا کرتے، کراچی میں نہ کوئی جان نہ پہچان۔ البتہ وہاں پر جان پہچان والے دیگر مسافر ملے جن کا کہنا تھا کہ ایئر پورٹ کے سامنے جھاڑیوں میں دیگر مسافر بھی چھوٹے چھوٹے تنبو لگا کر ٹھہرے ہوئے ہیں آپ بھی ٹھہر جائیں۔ چچا نے اس مشورے کو مناسب سمجھا اور کہا کہ ایک دو دن جلد ہی گزر جائیں گے امید ہے کہ آج کل میں ہمارے ٹکٹ آجائیں گے۔
یہ پرانا ایئر پورٹ تھا ایئر پورٹ سے لے کر اسٹار گیٹ تک جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔ بس ہم بچے سارا دن ایئر پورٹ کے باہر بیٹھ کر ہر آنے جانے والے مسافر کو دیکھتے رہتے تھے۔ کئی دن گزر گئے، نہ ٹکٹ ملے نہ سعودیہ جانے کا کوئی سلسلہ بن رہا تھا۔ والدہ الگ پریشان ہو رہی تھیں کیونکہ کبھی برسات ہو رہی تھی جس کی وجہ سے کھانا نہیں پک سکتا تھا۔ پھر ایک رات کو اچانک رات گئے ایئر پاورٹ کے باہر جھاڑیوں کے پاس شور شرابا ہونے لگا۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ ایک خوف کا عالم تھا۔ چچا تگیل بہت ہی خوفزدہ تھے۔ وہ رات ہم سب نے جاگ کر جھاڑیوں میں گزاری تھی کیونکہ چچا کا خیال تھا کہ صبح ہوتے ہی ہمیں یہاں سے ہر حال میں نکل کر واپس گاؤں جانا ہوگا۔ بقول ان کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں کیونکہ بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔ یہ پانچ جولائی 1977 کی رات تھی۔ دوسرے دن صبح کو سویرے جب ہم کالے پیلے رنگ کی ٹیکسی میں سوار ہوکر سہراب گوٹھ کی جانب جا رہے تھے تو جگہ جگہ پر فوجی ٹرک نظر آئے ملک میں مارشل لا لگ چکا تھا اور ہماری سعودیہ جانے والی فلائٹ جو مس ہوچکی تھی، یہ جمہوریت کی مس ہونے والی فلائٹ تھی جو ٹھیک طرح سے آج تک بحال نہیں ہوسکی۔