یوں تو آسکرز کی رنگا رنگ تقریب ہر برس ہی موضوع بحث بنتی ہے، مگر اس بار کی تقریب میں کچھ خاص تھا۔
ایسا خال خال ہوتا ہے کہ آسکرز میں ایک برس کے بجائے دو یا ڈیڑھ برس کی فلموں کا احاطہ کیا جائے۔ اور اس بار بھی یہی معاملہ ہے، ۲۰۲۰ کے ساتھ ۲۰۲۱ کے کچھ حصے کا بھی احاطہ کیا گیا تھا۔
اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ پہلی بار تھیٹر میں ریلیز ہونے والی فلموں کے ساتھ او ٹی ٹی پلیٹ فورم کی فلموں کو بھی شامل کیا گیا تھا، بلکہ بیش تر تو وہی فلمز ہیں، جو اسٹریم پلیٹ فورمز پر نظر آئیں۔
اچھا، ایک پہلو اور اہم۔ ماضی میں آسکرز پر یہ کہہ کر شدید سے تنقید کی گئی کہ یہ سفید فام آسکرز ہیں، خیال رہے کہ ۲۰۱۵ میں کچھ یوں ہوا کہ تمام نامزد اداکار سفید فارم تھے، مگر ۲۰۱۹ میں جب جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے بونگ جو ہو کی فلم پیراسائٹ، نہ صرف بہترین انٹرنیشنل فلم کے ساتھ بہترین فلم کی کیٹیگری میں بھی فاتح قرار پائی تھی۔ اور تب یوں لگا کہ آسکرز کمیٹی کے اپنے دامن پر لگنے والے داغ دھونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مگر کیا اس کا ایک سبب سفید فام نرگسیت، جرائم اور زیادتیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوسکتی ہے؟
کہیں یہ کوئی سیاسی اقدام تو نہیں؟ کیا مغرب، بالخصوص امریکا اس رنگا رنگ تقریب کے ذریعے، جو اس بار کورونا کے باعث کچھ پھیکی رہی، اس داغ کو دھونا چاہتا ہے؟
گو ہمارا قیاس تھا کہ گرے اولڈ مین کی Mank فاتح قرار پائے گی، جو دس کیٹیگریز میں نام زد تھی، مگر مقابلہ کڑا تھا صاحب۔ اور سفید فاموں کی انڈسٹری کی کہانی کے بجائے کسم پرسی کی شکار ایک عورت کی داستان، جس کی ہدایت کار ایک چینی خاتون تھیں، اس کا انتخاب شاید زیادہ موزوں ہوتا۔
تو جناب، نومیڈ لینڈ بہترین فلم، بہترین ڈائریکٹر اور بہترین اداکارہ کے ایوارڈز لے اڑی۔
ہدایت کار کا ایوارڈ اہم تھا۔ نومیڈ لینڈ کے لیے یہ ایوارڈ جیتنے والی ڈائریکٹر، کلوئی زاؤ گزشتہ ۹۳ برس میں یہ ایوارڈ لینے والی دوسری خاتون اور پہلی غیرسفید فام خاتون ہیں۔ انھوں نے دیگر غیرسفید فام ہدایت کاروں کے لیے بھی راہ ہم وار کر دی ہے۔
چین سے تعلق رکھنے والی کلوئی زاؤ اس ایوارڈ سے پہلے تک لگ بھگ غیر معروف تھی، مگر اب معاملہ بدل گیا ہے۔ 39 سالہ کلوئی زاؤ چین میں پیدا ہوئیں، برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔
اسی فلم کے لیے، ماضی میں دو آسکرز اپنے نام کرنے والے باکمال اداکارہ، فرانسس میک ڈارمنڈ نام زد ہوئی تھیں۔ اور توقعات کے عین مطابق وہ یہ ایوارڈ لے اڑیں۔ اپنی پرجوش تقریر میں انھوں نے ناظرین سے کہا کہ جب اس وبا سے ہماری جان چھوٹ جائے، تو آپ لوگ تھیٹرز میں جا کر، کاندھے سے کاندھے ملا کر یہ تمام فلمیں دیکھیں۔
فلم جوڈس اینڈ دی بلیک مسائیا کے لیے ڈینیئل کلویا کو بہترین اداکار کا آسکر ملا، اس کے لیے Lakeith Stanfield کو بھی بہترین معاون اداکار کے لیے نام زد کیا گیا تھا۔
بہترین اداکاروں کی صف میں رز احمد بھی شامل تھے، جنھیں ’ساؤنڈ آف میٹل‘ کے لیے نامزد کیا گیا۔ وہ بہترین اداکار کا ایوارڈ تو نہ جیت پائے لیکن اس فلم کو بہترین ساؤنڈ کا انعام ضرور ملا، جس کا اعلان کرنے کے لیے انھیں ہی سٹیج پر مدعو کیا گیا تھا۔
لڑکے میں دم ہے!