قوالی کے لیجنڈ ،سر اور سنگیت کے بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کی 73ویں سالگرہ کے موقع پر ان کے چاہنے والے ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
استاد نصرت فتح علی خان عظیم پاکستانی قوال، موسیقار اور گلوگار تھے، وہ فیصل آباد میں قوالی سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے، نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔
ںصرت فتح علی خان عالمی شہرت رکھتے تھے، بھارت میں گلوکاری کے شعبہ سے منسلک کئی بڑے نام جیسے کہ جاوید اختر، لتا منگیشگر، استاد نصرت فتح علی خان کے مداح تھے۔
قوالی کے لیجنڈ نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور سیکھانے میں صرف کی، انہوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچایا اور اسی بنا پر ان کو خود بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔
نصرت فتح علی خان نے کلاسیکل موسیقی کو ایک نیا رنگ دیا، انہوں نے اس کو جدید میوزک کے منفرد انداز میں کچھ اس طرح پیش کیا کہ ان کے گانے ہر عمر کے لوگوں میں مقبول ہوگئے۔
نصرت فتح علی خان نے صوفی گلوکاری کو بھی نئے انداز سے بنا کر پیش کیا جس کے باعث ان کے گائے کلام نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں بھی سنے گئے۔
استاد نصرت فتح علی خان کو کئی اعزازت سے بھی نواز گیا، 1987 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس (تمغہ حسن کارکردگی) اور پاکستان فلم انڈسٹری اور موسیقی کی دنیا میں کی گئی خدمات پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اس کے علاوہ ان کو یونیسکو کی جانب سے دیے جانے والے موسیقی کے انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
استاد نصرت فتح علی خان کی قوالی ’دم مست قلندر علی علی‘ کو عالمی مقبولیت حاصل ہے اس قوالی کے منظر عام پر آتے ہی نصرت فتح علی خان کی عالمی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
میری زندگی ہے تو، کسی دا یار نا بچھڑے، تم اک گورکھ دھندا ہو، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، دل لگی، اللہ ھو اور وہی خدا ہے سمیت کئی قوالیاں آج بھی لیجنڈری گلوکار کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔
استاد نصرت فتح علی خان 49 برس کی عمر میں 13 اکست 1997 کو دل کے دورے کے باعث دنیا بھر میں موجود اپنے مداحوں کو خیر آباد کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے