فہیم سلیم
کراچی کے ٹریفک کے مسائل اور ای چالان کے آغاز کی خبر اب ہر اخبار، نیوز چینل اور سوشل میڈیا پوسٹ میں چھائی ہوئی ہے۔ آج کراچی میں ای چالان کے نفاذ کو 30 دن مکمل ہوگئے ہیں اور اس دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر 93 ہزار سے زائد چالان کیے جاچکے ہیں۔ جی ہاں، 93 ہزار! لگ بھگ اتنے ہی لوگ اس سوچ میں غلطاں ہیں کہ آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا۔
سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر کیے گئے— تعداد ہے 57 ہزار 541، یعنی کراچی کے 57 ہزار سے زائد شہری یہ بھول گئے کہ گاڑی میں بیٹھتے وقت سیٹ بیلٹ باندھنا ضروری ہوتا ہے اور یقین کریں، یہ کوئی معمولی بات نہیں، کیونکہ ایک طرف بیلٹ نہیں باندھی گئی اور دوسری جانب ان پر 57 کروڑ 54 لاکھ 10 ہزار روپے کے جرمانے عائد ہوئے۔ لگ بھگ اتنی رقم سے شاید پورے کراچی کے لیے نیا پُل بن سکتا تھا، یا کم از کم شاہراہ فیصل پر نئے ہائی وے کے لیے چند نئے سائن بورڈز لگائے جاسکتے تھے۔
موٹر سائیکل سوار بھی پیچھے نہیں رہے، کیونکہ دوران سفر 22 ہزار 227 سائیکل سواروں نے ہیلمٹ نہیں پہنا۔ انہیں تو شاید لگ رہا تھا کہ ہیلمٹ صرف فیشن کے لیے ہے یا یہ ان کی شخصیت کا حصہ ہے، ان پر 11 کروڑ 11 لاکھ 35 ہزار روپے کے جرمانے لگے۔
تیز رفتاری کے شوقین بھی محفوظ نہیں رہے۔ ڈمپر، ٹریلر اور واٹر ٹینکر میں نصب ٹریکر کے ذریعے 1,188 چالان ہوئے جب کہ دیگر گاڑیوں کی تیز رفتاری پر 2,699 چالان کیے گئے۔ ڈمپر، ٹریلر اور واٹر ٹینکرز پر عائد جرمانوں کی تعداد کم ہے، کیونکہ ان کی جانب سے ہی سب سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ بہرحال لگتا ہے کہ کراچی کے ڈرائیوروں نے سپر ہیرو کے خواب دیکھتے ہوئے ہر دن تیز رفتاری کے مقابلے کا اہتمام کیا تھا، لیکن ٹریفک پولیس نے انہیں بتادیا کہ سپر ہیرو بننے کے لیے سپر جرمانہ بھی ضروری ہے۔
ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کے چالان بھی 3,102 تک پہنچ گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کچھ لوگ سمجھ بیٹھے تھے کہ سرخ بتی صرف سجاوٹ کے لیے ہے یا فوٹو شوٹ کا حصہ۔ اسٹاپ لائن کی خلاف ورزی پر 611 چالان جاری ہوئے جب کہ رانگ وے گاڑی چلانے پر 426 چالان کیے گئے۔ یہ دیکھ کر تو لگتا ہے کہ کراچی میں اکثر لوگ دائیں، بائیں کی پہچان بھول جاتے ہیں اور اسی بھول بھلیاں میں ٹریفک پولیس انہیں یاد دلاتی ہے کہ راستہ سیدھا اور صاف ہے!
اب آتے ہیں فینسی نمبر پلیٹس اور رنگین شیشوں والی گاڑیوں کی طرف، 1,278 گاڑیوں کے فینسی نمبر پلیٹس ہونے پر چالان ہوئے جب کہ 1,178 گاڑیوں پر رنگین شیشے ہونے کی وجہ سے جرمانہ لگایا گیا۔ شاید یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ گاڑی کو فلمی اسٹائل دینے سے وہ ای چالان سے بچ جائیں گے، لیکن ٹریفک پولیس نے ثابت کردیا کہ وہ حقیقی زندگی کے قانون نافذ کرنے والے ہیروز ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب چالان کیوں ہوئے؟ وجہ واضح ہے۔ ای چالان نظام نے لوگوں کے ہر چھوٹی سے چھوٹی قانون کی خلاف ورزی کو پکڑلیا ہے۔ لگتا ہے کہ اب ہر شہری کو اپنے گھر سے نکلتے وقت سوچنا پڑے گا: "کیا بیلٹ باندھی ہے؟ ہیلمٹ پہنا ہے؟ تیز نہیں جارہا؟ سگنل تو نہیں توڑا؟” ورنہ جرمانہ آن لائن آجائے گا اور آن لائن رقم کی کمی سے شاید بجٹ میں کمی واقع ہوجائے۔
ٹریفک پولیس کے مطابق صرف سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر اتنا جرمانہ جمع ہوا کہ کراچی کی بسوں میں مفت سفر کروانے کے لیے یہ رقم کافی ہوتی اور ہیلمٹ نہ پہننے پر بائیک سواروں کو اتنا جرمانہ ہوا کہ شاید پورے کراچی میں ہر ہیلمٹ پر ڈیزائنر اسٹیکر لگوانے کے خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوجائیں۔ رنگین شیشوں کی گاڑیوں پر جرمانہ بھی قریباً 2 کروڑ 94 لاکھ 50 ہزار روپے ہوا۔
آخر میں، یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ای چالان کا نظام شہریوں کو قانون کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ اب سب لوگ نہ صرف قوانین کو یاد رکھیں گے بلکہ یہ بھی جان جائیں گے کہ ہر خلاف ورزی کا نتیجہ ایک آن لائن جرمانے کی صورت آسکتا ہے۔ آخر میں کہا جاسکتا ہے کہ: کراچی کے ڈرائیورز اب یا تو سیٹ بیلٹ باندھیں، ہیلمٹ پہنیں، سگنل کی پاسداری کریں، یا پھر ای چالان کے ذریعے اپنی جیب ہلکی کرنے کے لیے تیار رہیں۔