دو ہزار انیس کا سال اپنی رفتار کے مطابق آہستہ آہستہ آگے کی جانب سرک رہا تھا۔ اس برس کی دو سہ ماہیاں کنٹرول لائن پر روایتی بھارتی خلاف ورزیوں، اُس پار سے اِس پر رہنے والوں پر فائرنگ اور آزاد کشمیر کی چوکیوں اور شہری علاقوں پر گولہ باری کے ساتھ گزری تھیں۔ یہ وہ واقعات تھے، جو پوری دنیا کی نظر میں تھے۔
سال کی ابتدائی دو دہائیوں کے بعد بھارت کی جانب سے کچھ خفیہ اقدامات بھی کیے جانے لگے جس کی دنیا کو کوئی خبر نہیں تھی۔ پھر اچانک بھارت نے اپنے زیرتسلط جموں و کشمیر میں دس لاکھ فوج تعینات کردی۔ اس اقدام سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پاکستان اور دیگر ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مقبوضہ وادی کے عوام اور حریت رہنماؤں نے دنیا بھر سے اپیل کی کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی کا نوٹس لے۔ ان رہنماؤں نے فوجی تعیناتی کو کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ بھی قرار دیا۔ اور پھر دوسری دہائی کے دوسرے ماہ کے پانچویں دن بزدل بھارت نے وہ اقدام کیا، جس نے بھارت کے کالے کرتوتوں کی قلعی کھول دی۔ بزدل مودی سرکار نے اپنی پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کا بل منظور کرالیا۔ اس ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 370 منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی متنازع حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی ریاست بنادیا گیا۔ یہ واقعہ 5 اگست 2019 کا ہے، اور آج اس واقعے کو دو برس مکمل ہوچکے ہیں۔
آئینی ترمیم کے بعد چشم فلک نے بھارتی بزدل فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ وہ مظالم بھی دیکھے جس نے پتھر سے پتھر دل کو بھی رلا دیا۔ بھارت نے نہ صرف وہاں سخت ترین کرفیو نافذ کررکھا تھا بلکہ پانچ اگست سے قبل ہی تمام حریت رہنماؤں اور مقامی با اثر مسلمان افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔ ان گرفتار رہنماؤں کو بھارت کی بدنام ترین جیلوں میں قید رکھا گیا اور ان کو آج تک رہا نہیں کیا گیا۔ یہی نہیںِ بلکہ ظلم یہ ہے کہ ان رہنماؤں کے بارے میں بھارتی حکومت یہ تک نہیں بتا رہی کہ یہ لوگ کہاں ہیں۔
بھارتی مظالم کی داستان یہاں ختم نہیں ہوتی۔ مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ غیر آئینی قبضے کے ساتھ ہیں وہاں سخت ترین کرفیو نافذ کردیا گیا۔ کسی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی۔ ہزاروں کشمیری بزرگ دوا نہ ملنے اور شیرخوار بچے دودھ کے لیے بلک بلک کر راہی عدم ہوئے۔ شہادتوں کا سلسلہ یہاں بھی نہ رکا اور بھارتی بزدل وردی والوں نے نام نہاد تلاشی کی آڑ میں نوجوانوں کو چن چن کر گرفتار بھی کیا اور انہیں سڑکوں پر لا کر گولیاں مار کر شہید بھی کیا۔
ابھی شہادتیں اور گرفتاریاں جاری تھیں کہ بلکتے سسکتے کشمیری خاندانوں پر ظلم یہ کیا گیا کہ مواصلاتی نظام، ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل کردی گئی اور گھرون میں محصور مظلوم کشمیری اپنے عزیز و اقارت یہاں تک کہ پڑوس تک سے کٹ کر رہ گئے۔ یہ سلسلہ بیش تر علاقوں میں آج تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم اور دیگرصحافی گروپوں کو سری نگر اور دیگر کشمیری علاقوں کے دورے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ کئی ماہ عالمی دباؤ کے بعد بھارت نے بعض صحافیوں کو سری نگر کا دورہ کرایا لیکن مجرمانہ طور پر انہیں کسی بھی کشمیری مسلمان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یوں بھارتی حکومت نے پورے مقبوضہ کشمیر کو کھلے جیل میں تبدیل کردیا۔
بھارت اپنے طور پر اپنے اس فیصلے کو بھارت کے حق میں سمجھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت تاحال اس فیصلے کو کشمیریوں کے لیے قابل قبول بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ یہی وجہ ہے دو برس گزر جانے کے باوجود مقبوضہ وادی میں جزوی طور پر سخت کرفیو نافذ ہے۔ سخت پابندیوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے غیور مسلمانوں کا دل اب بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے اور ان کی خواتین اس اگست میں بھی یوم پاکستان منانے کے لیے اپنے گھروں میں پاکستانی پرچم تیار کررہی ہیں۔
بھارت کے خوف کا یہ عالم ہے کہ یوم آزادی پاکستان سے کئی ہفتے قبل سری نگر سمیت مکمل مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی کے نام پر مزید فوجی تعینات کردیے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے آمدہ اطلاعات کے مطابق وہاں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ ان دو برسوں میں کشمیری معیشت کو 80 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوگئے جو باقاعدہ کام اپنے کاروبار کررہے تھے، کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کی بیشتر فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ان دو برسوں میں سینکڑوں نئے قوانین جموں کشمیر میں نافذ کیے گئے ہیں۔ ان قوانین کی رو سے غیرمقامی لوگوں کو شہریت دینے، فوج کو کہیں بھی تعمیرات کی اجازت اور مقبوضہ کشمیر میں ملازمتوں کے لیے بھارت بھر کے اُمیدواروں کو اہل قرار دیے جانے کی رعایت دے گئی ہے۔ اس فیصلے کا مقصد کشمیر میں مسلم اکثریتی کردار اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ کشمیر میں بھارتی اقدام کے بعد بھارت نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتی برادریوں کے لیے شہریت کے دروازے بند کرنے کا قانون بھی منظور کیا تھا، جس کی دنیا بھر سے مخالفت سامنے آئی تھی۔
سچی بات یہ ہے کہ بھارت عالمی سطح پر کشمیر کے معاملے پر سفارتی جنگ ہار چکا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کا کشمیر سے متعلق اقدام مودی حکومت کی جانب سے اپنی سفارتی ناکامی کا سرکاری سطح پر اعتراف ہے۔ بھارت بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر وہ آج بھی کشمیر کا معاملہ کسی بھی عالمیی فورم پر لے کر گیا تو جیت کشمیریوں ہی کی ہوگی۔ اور یہ جیت بھارت کو کسی طور قبول نہیں کیوں کہ کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔