قدرت کے کھیل بڑے نرالے ہوتے ہیں، وہ کب، کیا اورکیسے چیزوں کو جوڑ اور توڑ دیتا ہے اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا، وہ فرعون کے گھر میں موسیٰ علیہ اسلام کو جوان کردیتا ہے اور نوح علیہ اسلام کے بیٹے کو خود سے منحرف کردیتا ہے۔ وہ ابراہیم علیہ اسلام کے ہاتھوں اپنے پیارے بیٹے اسمٰعیل علیہ اسلام کو قربان کرنے کا حکم دے دیتا ہے تو یونس علیہ اسلام کو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھتا ہے۔ یہ سب خدا کے بھید ہیں اور خدا ہی انہیں بہتر جانتا ہے۔
کورونا سے پہلے دنیا کیا کیا سوچتی تھی؟ طاقتور ممالک خود کو سب سے بہتر اور کمزوروں کو بدتر تصور کرتے تھے۔ وہ اسلام کو دقیانوس، پرانے خیالات والا کہہ کر اکثر شعارِ اسلام کا تمسخر بھی اڑاتے تھے۔ انہیں پردہ ظلم لگتا تھا، وہ اذانوں پر پابندی بھی عائد کرتے تھے اور مذہب اسلام پر عمل کرنے والے کو جاہل و دقیانوس تصور کرتے تھے۔ نہ صرف یہ لوگ بلکہ روشن خیال مسلمان بھی ان کی حمایت میں اسلامی شعار کو آوُٹ ڈیٹڈ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔
لیکن کورونا آیا اور دنیا کی سوچ پر، افکار پر اور عمل پر ایسا دھچکا لگا کہ وہ جو کبھی کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے آج خود کو خدا کے آگے بے بس تصور کرنے لگے ہیں۔ نہ صرف اتنا ہی بلکہ اسلامی شعار اپنانے کی تاقید بھی کر رہے ہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے صحافی نے سوال کیا کہ ماسک نہیں مل رہے مارکیٹ میں کیا کیا جائے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے جواب نے سب کو حیرت میں مبتلا کردیا، ٹرمپ نے جواب میں کہا کہ اگر ماسک نہیں ہے تو ’اسکارف پہن لیں، بہت سی خواتین اسکارف پہنتی ہیں‘۔
اس طرح کے جواب کی توقع نہ سوال کرنے والی صحافی نے کی تھی اور نہ ہی دنیا کو امید تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسا مشورہ دیں گے۔ خدا کی قدرت ہے، اُس کی شان ہے۔ پہلے امریکا مذہبی شناخت رکھنے والی جماعت طالبان سے ڈائیلاگ کرکے اس بات پر ثبتِ مہر لگا چکا کہ وہ یہاں شکست کھا چکا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے برملا اس بات کا اظہار کرکے یہ ثابت کردیا کہ اسلامی شعار دقیانوس نہیں بلکہ اس کے ذریعے وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اب بھی کچھ روشن خیال حضرات اس جواب کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن اُن حضرات کی بے چینی اور بے خودی بے سبب ہی ہوگی کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے اسکارف کا ذکر کرکے اسلامی شعار کا تذکرہ کیا۔
خدا کو حمد ہے، یہ اُسی کی شان ہے کہ رسی ڈھیلی کرتا ہے تو نمرود خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے اور فرعون خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھ کر اللہ کے نبی کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ جب وہ چاہتا ہے تو دریا میں سے راستہ بنا دیتا ہے اور کبھی وہ آگ میں پھول کھلا دیتا ہے۔ وہ یوسف علیہ اسلام کو غلام بنا کر فروخت بھی کروا دیتا ہے اور پھر وہ اُن ہی یوسُف علیہ اسلام کو بادشاہ کے دربار میں معزز بنا کر پیش کرتا ہے اور حکمرانی سے سرفراز کرتا ہے۔ اُسے حمد ہے کہ اُس کے بھید وہ خود ہی جانتا ہے، اُس کی حکمت کے آگے ساری عقلیں دھنگ اور ساری طاقتیں بے بس ہوجاتی ہیں۔ وہ اکیلا تنہا بادشاہ ہے اور اُسی کی کبریائی ہے۔ انسان بے بس تھا، بے بس ہے اور بے بس رہے گا۔