اسلام آباد: ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شوگر ملز مالکان کی درخواست پر مختصر فیصلہ سنادیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مختصر فیصلے میں شوگر ملز مالکان کی درخواست کو مسترد کیا اور درخواست پر جاری حکم امتناع بھی ختم کردیا۔
عدالت نے شوگر انکوائری رپورٹ پر متعلقہ اداروں کو کارروائی کی بھی اجازت دے دی ہے۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چینی انکوائری کمیشن کے خلاف شوگر ملز کی درخواست پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں یہ رواج بن چکا، شوگر ملز کے طاقت ور طبقات حکومت میں موجود ہوتے ہیں، یہ کہنا غلط ہوگا کہ انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لیے بنایا گیا، انکوائری تو حکومت کے اپنے مضبوط اتحادیوں اور دوستوں کے خلاف بھی ہورہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کسی تعصب پر مبنی کارروائی نہیں۔
خالد جاوید خان نے کہا کہ کمیٹی میں آئی ایس آئی کے رکن کی شمولیت کا اعتراض آیا تھا اس کی وضاحت کردوں، سپریم کورٹ نے پاناما اور فیک اکاونٹس کیس میں بھی جے آئی ٹی تشکیل دی، اس میں بھی مختلف اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا تھا، انکوائری کمیشن نے ایسے ٹی او آرز کے تحت کام کیا کہ شوگر انڈسٹری کے تمام پہلو سامنے آسکیں، ایک لحاظ سے یہ رپورٹ مکمل ان کے خلاف بھی نہیں بلکہ اس میں غیر قانونی اقدام کی نشان دہی کی گئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ شوگر ملز کا مسئلہ حکومتی پریس کانفرنسز بھی ہیں، جو حکومت میں ہیں ان کو تو اس طرح کی پریس کانفرنسز کرنے کی ضرورت ہی نہیں، ایسی پریس کانفرنسز دوسرے فریق کے حقوق متاثر کرتی ہیں، انکوائری اور تفتیش کے شروع میں ایسی پریس کانفرنسز نہیں ہونی چاہئیں۔
شوگر ملز کے وکیل مخدوم علی خان نے حکم امتناع میں توسیع کی درخواست کی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر مزید اسٹے آرڈر دینے سے انکار کردیا۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کرکٹر سلیم ملک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹر پر آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا الزام تھا اور انہوں نے پاکستان میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی لیکن ان پر جو الزام تھا اس سے متعلق پاکستان میں کوئی قانون نہیں تھا، اس لیے انکوائری کمیشن بنایا گیا، لہذا شوگر کے معاملے پر تمام متعلقہ قوانین ملک میں موجود ہیں، حکومتی انکوائری کمیشن کی ضرورت نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے شوگر ملز وکیل سے کہا کہ کمیشن رپورٹ میں وفاقی وزیر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں بھی لکھا، کیا وہ بھی تعصب ہے؟ ان لوگوں کے بارے میں بھی سیریس لکھا گیا جو ابھی وفاقی کابینہ میں ہیں، زیادہ تشویش تو اس پبلک آفس ہولڈر کو ہونا چاہیے تھا، جو آج اس حکومت میں ہے، اس سارے کے ہوتے ہوئے ہم کیسے کہہ دیں کہ رپورٹ تعصب کی بنا پر تیاری کی گئی؟ آپ تو بینفشری ہیں، آپ سیکنڈری ہیں پہلے تو پبلک آفس ہولڈر آتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چینی رپورٹ میں موجودہ حکومت کے ذمے داران کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا، ملز مالکان تو فائدہ لینے والے ہیں، اصل مسئلہ تو عوامی عہدہ رکھنے والوں کو ہونا چاہیے، ذمے دار قرار دیے گئے کسی حکومتی رکن نے چینی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا؟ ابھی تک پتا نہیں نیب اس پر کارروائی کرتا بھی ہے یا نہیں، چینی رپورٹ اصل میں موجودہ حکومت اور نیب کا امتحان ہے۔