پاکستان اور بھارت: دو مختلف ریاستیں، دو مختلف چہرے

بھارت میں مودی سرکار کے آتے ہی ہندو انتہا پسندی کو فروغ ملا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی باتیں اب تو دنیا بھر میں کی جا رہی ہیں خود انڈیا کے کچھ صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آئے دن اس بات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ بھارتی ریاست مودی کی سرپرستی میں اس قدر پاگل اور جنونی ہو چکی ہے کہ وہ ہندووُں کے علاوہ کسی اور کا وجود بھی بھارت میں برداشت نہیں کر سکتے، یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہندو ہی پاک ہیں باقی ساری ذاتیں ناپاک ہیں، خاص طور پر مسلمان جو کہ ان کا اول ترین نشانہ ہیں۔

پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش بھارت آئے دن کرتا ہی رہتا ہے جس میں ان کا میڈیا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، سچ اور جھوٹ کی تمیز بھارتی میڈیا نے سیکھی ہی نہیں۔ جرنلزم کیا ہوتی ہے، رپورٹنگ کی زمہ داری کیا ہوتی ہیں، خبر کی تصدیق کی جائے یا نہیں یہ تو ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ بس پاکستان کے خلاف خبر ہونی چاہیے باقی جھوٹ کا ترکا یہ خود ہی لگا دیتے ہیں۔

پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکسان نے کرتارپور راہداری کھول کر کس طرح بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا، سکھوں کی عبادت گاہ تعمیر کرکے پوری دنیا کے سکھوں کو ان کے مقدس مقام کی زیارت کا شرف بخشا جو کہ ان کا حق بھی تھا اور پاکستان کی ذمہ داری بھی۔ پاکستان میں کبھی کوئی مندر، گرجا گھر یا گردوارہ نہیں توڑا گیا، پاکستان میں کبھی ہجوم نے ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں کا قتل نہیں کیا، پاکستان میں تمام مذاہب کو یکساں آزادی حاصل ہے۔

کرتارپور

اس کے مقابلے میں بھارت میں آئے دن اقلیتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا تو بھارتی شدت پسندوں کے لیے عام سی بات ہے۔ بابری مسجد کا سانحہ کون بھول سکتا ہے؟ بابری مسجد کی شہادت نے بھارت کے سیکولر ملک ہونے کے دعوے خاک میں ملا دیے۔ شیو سنہا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے انڈین ٹی وی شو آپ کی عدالت میں برملا اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ شیو سنہا کے گنڈوں نے بابری مسجد کو توڑا، نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی اقرار کیا تھا کہ مسلمانوں کا ہندوستان میں کیا کام؟ یہ تو عرب اور افغان سے آئے تھے واپس وہی جائیں۔

بابری مسجد شہید کرتے ہوئے

یہ صرف شیو سنہا کی نہیں بلکہ بھارت انتہا پسند ہندوُں کی سوچ ہے، اب یہ سوچ بھارتی ریاست کا اہم مقصد بن چُکا ہے اور بھارتی میڈیا اس سوچ کو عملی شکل دینے کے لیے دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کا وجود ویسے ہی بھارت کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور اس وجود کا پھلنا پھولنا اور دنیا بھر میں اپنا لوہا منوانا انہیں مزید اندر سے تکلیف دیتا ہے۔ اس لیے بھارت، پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ حالیہ بارشوں اور طوفان کی وجہ سے کرتارپور گردوارے کے گنبد ٹوٹ گئے۔

بس گنبد کا ٹوٹنا تھا اور بھارتی میڈیا نے پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا اور سکھوں کے مذہبی جذبات کو بڑھانے کی کوشش کی۔ بھارتی میڈیا نے جس شدت سے یہ بتایا کہ کس طرح برسات اور طوفان سے گنبد گر گئے کاش اسی شدت سے وہ یہ بھی بتاتے کہ ایف ولیو او (فرنٹیئر ورکز آرگنائیزیشن) نے صرف چوبیس گھنٹے کے اندر گنبد پھر سے کھڑے کردیے۔

ایک طرف مساجد کو ریاستی پالیسی کے تحت توڑا جاتا ہے اور دوسری طرف طوفان و بارش سے فقط گنبد ٹوٹ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایک شخص نے صرف گردوارے پر حملہ کرنے کی دھمکی دی اور اسے پکڑ کر سزا دی گئی اور دوسری طرف بھارت میں برملا اس کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ ہم نے بابری مسجد کو شہید کیا اور اُس پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ ریاست جب خود دہشت گرد ہو تو وہ پھر کیونکہ دہشت گردوں کو سزا دے گی۔ پاکستان مشکل حالات سے لڑ کر سرخرو ہوکر ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے، بھارت نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے اور اب بھی منہ کی کھائے گا۔

پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ بھی ہے، اُنہیں حقوق بھی دیے جاتے ہیں اور وہ اس ریاست میں ہر طرح سے برابر کے شہری ہیں۔ بھارتی میڈیا اور ریاست کی سازش ناکام رہی ہے اور رہے گی۔ پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کو ہمیشہ پاکستان کی اقلیتوں نے ہی ناکام بنایا ہے۔ یہاں ہم سب ایک پاکستانی ہیں، قائدِ اعظم محمد علی جناح کے فرمودات کے مطابق پاکستان میں تمام مذاہب آزاد اور ان کی عبادت گاہیں آباد ہیں۔