اسلام آباد: پاور سیکٹر پر وزیراعظم کو ارسال کردہ رپورٹ میں ہوشربا انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ میں آئی پی پیز کی بلیک میلنگ اور لندن کی ثالثی عدالت میں جانے کی دھمکی روکنے کا مستند طریقہ کار بھی بتادیا گیا، رپورٹ کے مطابق حکومت کے پاس مہنگی بجلی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے صرف دو طریقہ کار ہیں، ان کمپنیوں کے ساتھ دوبارہ سے بجلی خریداری کے معاہدے کیے جائیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی پی پیز اگر مذاکرات پر آمادہ نہ ہوں تو فوری طور پر ان کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا جائے۔ بجلی خریداری معاہدے صرف خریدو اور پیسے دو کی بنیاد پر کیے جائیں۔
رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز اگر دباؤ ڈالیں تو 1994 اور 2002 کی پالیسی کے تحت لگنے والے پلانٹس کو ریٹائر کردیا جائے۔ 2002 پالیسی والے 11 پلانٹس کو ریٹائر کرنے سے حکومت کو 740 ارب روپے کی بچت ہو گی۔
حکومت نے مالی سال سات سے مالی سال انیس تک صارفین کو 3202 ارب روپے کی سبسڈی دی۔ اسی عرصہ کے دوران گردشی قرض کے باعث نقصانات 4802 ارب روپے پر پہنچ گئے۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016 میں مجموعی کیپیسٹی پیمنٹ 275 ارب روپے کی تھی، 12 ہزار میگا واٹ بجلی پیداوار میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی پیداوار میں اضافہ سے کیپیسٹی پیمنٹ مالی سال 2019 میں بڑھ کر 640 ارب روپے ہوگئی، آئندہ مالی سال 900 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹس کا تخمینہ ہے۔