وباء کا عالم اور تھیلیسیمیا کے بچے خون کے عطیات کے منتظر

تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے یعنی یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے مریض کے جسم میں خون کم بنتا ہے۔ تھیلیسیمیا مائنر کی وجہ سے مریض کو کوئی تکلیف، پریشانی یا شکایت نہیں ہوتی نہ اس کی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔ ایسے لوگ کیریئر (carrier) کہلاتے ہیں۔ علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں۔ شدید ترین قسم تھیلیسیمیا میجر کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا مائنر کہلاتی ہے۔ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا کہلاتی ہے۔تھیلیسیمیا کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔