”سوشل میڈیا“ بھی ”خوب“ ہے ، گھر گھر میں گھس کر لوگوں کے دماغوں کو فریم کر کے دلوں کے ساتھ کھیلتا ہے ۔ اوراس انسانی ایجاد کے آگے اب انسان ہی بے بس ہیں ۔ کہیں تو محبتوں کے ریس میں گھوڑا بن کر دوڑتا ہے تو کہیں اندھے کنوے میں محبت کو ہی دھکیل دیتا ہے ۔ کہیں کاروبار کو چمکا کر پیش کرتا ہے تو کہیں کاروبار کے جھانسے میں ہی پھنسا دیتا ہے ۔ کہیں گھریلو ناچاقیوں کے بڑھاوے میں مددگار ثابت ہوتا ہے تو کہیں گھر گھر کے قصے سرعام کر دیتا ہے ۔ کوٸی ہے اس دنیا میں جو ”سوشل میڈیا“ کے شر سے بچ پایا ہو؟
حالات کی نزاکت کا اندازہ بھی ہم لگاتے ہیں تو سوشل میڈیا دیکھ کر ۔ پڑوس کے گھر میں کیا چل رہا ہے تو سوشل میڈیا ہی خبر زار ۔ اپنے ہی گھر کے افراد اس وقت کیا کر رہے ہیں تو بھی سوشل میڈیا زندہ باد ۔ ابہام سے الہام تک ، اس ” سوشل میڈیا “ کی لاٹھی چل رہی ہے ۔ سچ اور جھوٹ کا اندازہ لگانا تو دور کی بات ہے ، اس ” سوشل میڈیا “ کو زندگی میں چلتا پھرتا رکھنے کے لٸے ہم ” آدم زاد “ ساری قربانیاں سہہ لیں گے ، بس کوٸی ہم سے ” سوشل میڈیا “ کی سہولت نا چھینے ! ورنہ پھر اس دنیا میں رکھا کیا ہے ۔۔۔
ایک پوسٹ کافی عرصے سے میری آنکھوں کے سمندر میں سے تیرتی ہوٸی پار ہوتی رہتی ہے ، وہ بھی ”سوشل میڈیا “ پر ۔ لطیفے ، مزاق اور فرسودگی کی حد پار کرتے ہوٸے ۔ وہ صفحہ ” پھو پھو کی چالاکیاں “ ہے ۔ خدا جانے یہ حرکت کس دل جلے کی شروع کی ہوٸی ہے پر پڑھ کر دو منٹ کے لٸے مجھے بھی ہنسی آ ہی جاتی ہے ۔ پھر اس پر وہاں لاٸیک اور کمنٹس کرنے والوں کی رفتار اور تعداد ، اف توبہ ، لگتا ہے ” دل جلے “ صرف صفحہ بنانے والا ہی اکیلا واحد نہیں ۔ اس غم میں اور بہت سے لوگ شریک ہیں ۔ پر کیا ایسا ہی ہے یا یہ بھی ” سوشل میڈیا “ کی ” شیطانی “ ہے ؟ ۔ پچھلے دنوں اسی بات پر کچھ خواتین کے ساتھ گفتگو چل رہی تھی کسی پارٹی میں ۔ ہر دوسری خاتون نے اس پر غصے کا اظہار کیا ۔ ایک تو اتنے جوش میں آگٸیں کہ اپنے قصے سنا کر ”سوشل میڈیا “ کے اس کارنامے کو زباں کے تیر سے چھلنی چھلنی کر گٸیں ۔ موصوفہ فرمانے لگی ” بھلا پھو پھو سے پیارا اورمیٹھا رشتہ ہے کوٸی ! ابھی پچھلے دنوں اپنے بڑے بھاٸی کے بڑے بیٹے کی پسند کی شادی کروانے میں سارا زور لگا دیا میں نے ۔ بڑے بھاٸی اور بھابھی تو مان ہی نہیں رہے تھے ۔ بےچارے بیٹے کو قربانی کا بکرا بنا کر خاندان میں شادی کروانے کے چکر میں تھے ۔ میں ، میں نے سارا کھیل بنایا ، بڑے بھاٸی کے دماغ کی ٹیوننگ کی ۔ خدا واسطے دٸیے۔ بیٹے کی زندگی کے خواب دکھاٸے ۔ تو کہیں مانے ۔ میری جیسے ہوتی ہیں پھو پھو ۔ ہاں! “ ۔ کولا کا گھونٹ غٹک کر وہ خاتون بولیں ۔ سب خواتین واہ واہ کرنے لگیں ۔ میں نے پوچھا ” تو اب تو بھاٸی کے گھر امن ہو گا نا؟ ۔ آپ کے تو سب قدردان ہوں گے ؟ “۔ وہ محترمہ سموسہ چباتے ہوٸے بولیں ،” کہاں ایسی قسمت میری ! شادی کے بعد سے بھاٸی کی نٸی بہو شوہر کو لے کر الگ ہو گٸیں ، کاروبار گھر میں بٹوارا کروا بھیٹیں بہو ۔ اور تب سے بھاٸی بھابھی میرا چہرہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔ اب بھلا اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ “ ۔ اور میں ، مسکرا کر سوچنے گی کہ اب تو ” پھوپھو کی چالاکیاں “ والا صفحہ میں روز ہی دیکھوں گی۔
” سوشل میڈیا “ کے چکر بڑے نرالے ہیں ۔ خبر کی بھی الگ خبر بنا کر پیش کرتا ہے یہ ” سوشل میڈیا “ ۔ گلی کو شہر اور گھر کو چار دیواری سے باہر ہی نکال دیتا ہے ۔ اب جن کو آرام سے رہنے کی عادت ہو وہ بھی بےچارے اس کے قصے ، کہانیاں ، تصاویر اور وڈیوز کے شر سے خود کو بچا نہیں سکتے ۔ آج کل کے جان لیوا حالات کو ہی لے لیجٸے ۔ ہم ” کرونا “ کا رونا رو رہے ہیں ۔ اور ” سوشل میڈیا “ اس وبإ سے علاج تک کا سفر روز طے کرتا رہتا ہے ۔ اور ہم ”بے وقوف“ روز ہی بنتے رہتے ہیں ۔ اب بھلا اس وبإ کا خوف کیسے ختم ہو؟ ۔ ہمیں جانے کتنا عرصہ ہو گیا آپس میں مل بیٹھ کر بات چیت کر ، ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کے ارادے سے ، کبھی گھر کے افراد ایک جگہ اکٹھے ہوٸے ہوں ۔ کوٸی سنے تو کوٸی سمجھے ۔ کوٸی مشورہ دے تو کوٸی دل کی بھراس نکالے ۔ ہمیں مشورہ بھی اب ” سوشل میڈیا “ سے ہی چاہٸے ، اور بات چیت کے لٸے بھی ”سوشل میڈیا“ ہی چاہٸے ، ہنسنے ہنسانے کے لٸے بھی اب ” سوشل میڈیا “ ہی چاہٸے اور دل بہلانے کے لٸے بھی ” سوشل میڈیا “ چاہٸے ۔ دو سو لوگوں کی راٸے ہمیں وفا داری اور سچاٸی کی راہ دکھتی ہے ، دو سوانجانے لوگ ۔ جب کہ گھر کے دو افراد ،چاہے ماں باپ ہوں ، بہن بھاٸی ہوں ، میاں بیوی ہوں ، خالہ ماموں ہوں ، ان سب کا مشورہ جیل کی سلاخیں نظر آتا ہے ۔ اب اس میں قصور ہمارے طرز عمل اور سوچ کا بھی ہوا نا ۔ جو ” سوشل میڈیا “ کے استعمال سے بدل سا گیا ہے ۔ ہم جاگتے ہیں تو ” سوشل میڈیا “ چیک کرنے ، اذان کی آواز اور نماز اب ہمیں نہیں جگا سکتی ۔ ہم سوتے ہیں تو ” سوشل میڈیا “ کے بیس لوگوں کو ” شب بخیر “ بول کر ۔ گھر میں موجود ماں باپ بہن بھاٸی جیسے پاکیزہ رشتے ” شب بخیر “ کے حقدار ہی نہیں ۔ ہم ہر دم مدد کے لٸے تیار رہتے یا دکھاٸی دیتے ہیں تو ” سوشل میڈیا “ کی ”عوام “ کے لٸےہی بس ، جبکہ گھر میں یا ارد گرد بہت سے ضرورت مند روز ہمیں دکھاٸی دیتے ہیں ، پر ہم یہاں وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں مدد کرنا ۔ بدلا تو ہے ۔ سب کچھ ۔ اب ہم ”ڈیجیٹل انسان “ بن چکے ہیں ، انسانیت بھی ڈیجیٹل ، کام بھی ڈیجیٹل اور نام بھی ڈیجیٹل ۔ کہیں ہم ” انسانیت “ کے بھیس میں ” خلاٸی مخلوق “ تو نہیں بنتے جا رہے ؟ !! اس پر میرا تجربہ تو جاری ہے ۔پر ٹہریٸے ! زرا ” سوشل میڈیا “ چیک کر لوں ۔