محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر اتنا وقت گزر جانے کے بہ وجود بھی اکثر ہر آنکھ اشکبار رہتی ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں امن اور جمہوریت پسند عوام ان کی شہادت کو جمہوریت، علمی امن اور مسّلم دنیا اور مغرب کے درمیان سب سے بڑی پل کا ٹوٹ جانا قرار دیتی ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو ایک اعلی انسان بہترین سیاسی لیڈر قابل رشک اور بہادر رہنما اور خیال رکھنے والی بہن تھیں۔ ان کی شہادت نے جہاں اوروں کو رولا یا ہے، وہاں مجھ سمیت محترمہ کے جان نثار ساتھیوں کو بھی بی بی شہید کی شہادت نے ہلا کر رکھ دیا ہے، 27-12-2007 کی وہ خوف ناک شام بھولے نہیں بھولتی اور جب جب وہ لمحہ یاد آجاے یقین نہیں آتا کے ہماری محبوب قائد اور ہماری بہیں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی پوری زندگی شاندار سیاسی جد و جہد میں گزار کر اپنی ماں کی کوکھ کے تقدس کو سر بلند رکھا اور پھر وطن اور لوگوں کے لئے جان کا نذرانہ پیش کر کے دھرتی کی کوکھ کا قرض اتار دیا۔
بی بی کی شہادت کے نتیجہ میں ملک میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ پر اردو زبان میں اتنا ہی زبردست اور دل کو چھو جانے والا سیاسی ادب تخلیق کیا گیا جتنا سندھی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں پیش کیا گیا۔
میں نے اپنے سیاسی سفر میں شہید قائد محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ سے کئی ملاقاتیں کیں، وہ سیاسی رہنما وہ ہماری قائد اور وہ شفیق ماں جو ملک اور قوم کی خدمت میں پیش پیش رہی ایک ھات میں انکے انکا فرضند اور دوسری طرف ہم سیاسی کارکنان سے سیاسی امور پر بات چیت ایسی تھی ہماری قائد جو نہ تو ماں کا فرض بھولیں اور نہ قائد کا دونوں کو بہ خوبی نبھانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ اور کچھ بیان کر سکوں بس اتنا کہوں گا،
"بینظیر بھٹو تو بس”
"بینظیر جیسی تھیں”