ماہ شعبان المعظم کا چاند ہوتے ہی فضاء میں نور کی خوشبو بکھر جاتی یے اور اللہ کے مہینے رجب کے بعد میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماہ شعبان کا آغاز ہو جاتا یے۔یہ مہینہ اسلامی تعلیمات کی رو سے بابرکت مہینوں میں شمار ہوتا ہے اور احادیث میں اسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کیا گیا ہے۔شعبان "شعب” سے مشتق ہوا ہے اور چونکہ اس مہینے میں مومنین کی رزق و روزی اور حسنات میں اضافہ ہوتا ہے اسلئے اس مہینے کو "شعبان” کا نام دیا گیا ہے اس ماہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل مبارکہ علیہ السلام کی وہ خاص ولادتیں بھی ہیں جسکو کربلا سجنے کا کہا جاتا ہے وہ تمام نام جو واقعہ کربلا میں سرفہرست ہیں۔ان تمام پاک ہستیوں کی آمد دنیا میں اسی ماہ ہوئی۔ یکم شعبان ولادت بی بی زینب سلام اللہ علیہا ( تاریخ میں تضاد ہے) ،3 شعبان ولادت امام حسین علیہ السلام ، 4 شعبان ولادت حضرت عباس علمدار علیہ السلام ،5 شعبان ولادت امام سجاد علیہ السلام ،11 شعبان ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام ہمشکل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 15 شعبان ولادت امام مہدی علیہ السلام (فقہ اہل تشیع) جبکہ ماہ شعبان کو مسجد قبلتین میں ظہر کی نماز کے دوران قبلہ تبدیل کرنے کا حکم آیا۔متعدد احادیث میں اس ماہ کے روزوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے۔اسی طرح حدیث میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شب برات کو قبرستان جانا ثابت ہے اس لیے مسلمان بھی اس رات کو قبرستان جاتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرہ شعبان کی رات کو اپنی امت کی بخشش کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر چودھویں رات کو دعا مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو تہائی امت عطا فرمائی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرھویں شعبان کی رات کو دعا مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام امت سوائے چند نافرمان اشخاص کے آپ کے سپرد کردی گئی۔شب برات انہی خاص ایام کے قبیل سے تعلق رکھنے والی ایک اہم رات ہے، جس میں احساسِ زیاں کو اجاگر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ قرآن کریم کا الوہی پیغام ’لعلکم یتذکرون، لعلکم یتفکرون‘ کی صورت میں ہر وقت بلند ہورہا ہے۔ براۃ کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ برات کا معنیٰ ہے گناہوں سے نجات کی رات۔ گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، یہ رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔ اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کاموجب بن سکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِيْنِ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِیْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْمٍ۔حا میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس رات میں ہر حکمت والے کام کا جدا جدا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔الدخان، 44: 1تا4۔اسلامی دنوں میں سے چند دنوں اور راتوں کو اسی لئے فضیلت دی گئی ہے کہ یہ دن اور راتیں دوسرے دن اور راتوں سے منفرد مقام رکھتے ہیں شب برات یا شب براءت اسلامی تقویم کے آٹھویں مہینے شعبان کی 15ویں رات کو کہتے ہیں، مسلمان اس رات میں نوافل ادا کرتے ہیں اور قبرستان کی زیارت کرتے ہیں ، ایک دوسرے سے معافی چاہتے ہیں۔ اس رات کو مغفرت کی رات اور رحمت کی رات بھی کہا جاتا ہے کوشش کرونگی ماہ شعبان اور شب برات کے بارے میں فقہ اہل تشیع ، فقہ اہل سنت اور فقہ اہل حدیث کی جانب سے مختلف اور مختصرا” حوالہ جات کے ذریعے کچھ معلومات یکجا کر کے بیان کروں۔اہل حدیث علماء کے مطابق۔علامہ ابن تیمیہ سے نصف شعبان کی رات نماز کے بارے میں سوال کیا گيا: تو ابن تیمیہ نے جواب دیا اگر”اس رات میں کوئی تنہا یا مخصوص جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ اسلاف کے بہت سے لوگوں کا یہ معمول تھا، تو یہ اچھا عمل ہے۔“ نامور اہل حدیث عالم اور شارح حدیث علامہ عبد الرحمان مبارک پوری ترمذی کی شرح میں لکھتے ہیں۔”معلوم ہونا چائیے کہ نصف شعبان کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب کے مجموعہ سے پتا چلتا ہے کہ ان احادیث کی کوئی نہ کوئی اصل ہے۔اس کے بعد نصف شعبان پر متعدد حدیثیں نقل کیں ہیں اور کہا ہے:یہ تمام حدیثیں ان لوگوں پر حجت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی حدیث نہیں جبکہ بہت سے مفسرین نے سورۃ الدخان کی آیت نمبر2 (انا انزلناه فی ليلة مبارکة) کی تفسیر میں نصف شعبان کی رات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:
اس رات میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔
اس رات میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔
اس رات میں رحمت کا نزول ہوتا ہے۔
اس رات میں شفاعت کا اہتمام ہوتا ہے۔
اس رات بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔
(زمخشری، الکشاف، 4: 272 تا 273)
اہل سنت حوالہ جات کے مطابق حضرت امام طائوس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن ابن علی علیہ السلام سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں:ایک حصہ میں اپنے نانا جان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں کرتا ہوں کہ اس نے حکم دیا:
يا يها الذين امنوا صلو عليه وسلموا تسليما.’’اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب بھیجا کرو‘‘۔(الاحزاب، 33: 56)۔رات کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ اس نے حکم فرمایا:وما کان الله معذبهم وهم يستغفرون.’’(اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا کہ وہ اس سے مغفرت طلب کررہے ہوں۔(الانفال، 8: 33) اور رات کے تیسرے حصہ میں نماز پڑھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے: واسجد واقترب.’’اور (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!) آپ سربسجود رہئے اور ہم سے مزید قریب ہوتے جائیے‘‘۔(العلق، 96: 19)میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لئے کیا ثواب ہوگا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں نے حضرت علی علیہ السلام سے سنا انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے پندرہ شعبان کی رات کو زندہ کیا اس کو مقربین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان لوگوں میں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:فاما ان کان من المقربين.’’پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقربین میں سے تھا‘‘۔(الواقعه، 56: 88)
(توبه و استغفار، طاهرالقادری، ص:362، 361)۔ اہل تشیع کے مطابق شعبان کا مہینہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے تھے اور اسے ماہ رمضان کے ساتھ متصل کرتے تھے۔ ماہ شعبان کی فضیلت کے حوالے سے معصومین علیہ السلام سے احادیث نقل ہوئی ہیں جس کے مطابق بہشت اور اس کے نعمات اور کرامات سے بہرہ مند ہونا اس مہینے کے روزے کا ثواب بتایا گیا ہے۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
” جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تھا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرکے فرماتے تھے: جانتے ہو کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور خدا کی قربت کے لیے اس مہینے میں روزہ رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے۔میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین بن علیعلیہ السلام سے سنا، وہ فرماتے تھے: میں نے اپنے والد گرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت و حرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔”شیخ طوسی نے صفوان جمال سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں:”امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا جو اشخاص تمہارے آس پاس میں ہیں انہیں ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی ترغیب دیں۔ میں نے کہا میں آپ پر قربان ہو جاؤں کیا اس کی فضیلت میں کوئی چیز ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں بتحقیق جب بھی شعبان کا چاند نظر آتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منادی کو حکم دیتے تھے کہ مدینہ میں اعلان کریں: اے ہل مدینہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے یہ پیغام دے رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ آگاہ ہو جاؤ شعبان میرا مہینہ ہے پس خدا اس شخص پر رحمت نازل فرمائے جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی اس مہینے میں روزہ رکھے۔اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ 15 شعبان 255ھ کو امام مہدی کی پیدائش ہوئی۔ وہ اس رات امام مہدی علیہ السلام کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ رض فرماتی ہیں۔”ایک رات میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع قبرستان میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر اپنی شان کے مطابق جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔“یہ روایت حدیث کی اکثر کتب میں مذکور ہے۔ کثرت ِ روایت کے سبب یہ حديث درجہ صحت کو پہنچ گئی ہے۔ اس کو ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، مشکوٰۃ، مصنف ابنِ ابی شعبہ، شعب الایمان للبیہقی وغیرہ میں بھی روایت کیا گیا ہے۔قبیلہ بنو کلب کثرت سے بکریاں پالتے تھے جس کی مثال اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔ ایک رویت میں مسلمانوں کا لفظ ہے اور دو شخصوں میں سے ایک قتل کرنے والا اور دوسرا کینہ رکھنے والا مذکور ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔”جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔“حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان اور دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔شبِ برأت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے "جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو اس حدیث پر مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں،”تابعین میں سے جلیل القدر حضرات بھی مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مساجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے آج بھی پاکستان،ہندوستان، بنگلہ دیش اور ترکی وغیرہ میں مسلمان شب بیداری کا اجتماعی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں مگر اس سال کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے کتنے ہی مسلمان اجتماعات میں اور قبرستان جانے سے محروم رہیں گے۔ اسے اللہ کا امتحان سمجھتے ہوئے گھر پر نوافل اور عبادات کر کے اللہ سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگیں ہمارا اللہ ہم سے ناراض ہے اور میرا ایمان ہے کہ وہ ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا اللہ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا وہ ہم سے معافی طلب کرنا چاہتا ہے ان خطاؤں کی جو ہم کبھی دانستہ طور پر اور کبھی نہ دانستہ طور پر انجام دے دیتے ہیں۔اسی لئے ہمارا اللہ ہمیں مشکل وقت میں مسلسل معافی کی طلبگاری کیلئے مبارک راتیں دے رہا ہے ماہ رجب میں شب معراج، اب ماہ شعبان میں شب برات اور آنے والا اسلامی مہینہ رمضان المبارک ہے جس میں طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش ہے۔ہمارا اللہ ہمارے بھولے ہوئے سجدے اور کھوئی ہوئی عبادات دوبارہ ہمارے دل میں جگا کر ہم سے توبہ استغفار چاہتا ہے مجھے یقین یے وہ دو جہانوں کا مالک ہماری توبہ قبول فرمائے گا اور اس کورونا وائرس کی وبا سے نجات دے گا انشاءاللہ۔آمین یا رب العالمین