سولویں صدی کے مشہور برطانوی مورخ تھامس فولر نے لکھا تھا ‘انسان کو کنویں کی قدر اُس کے خشک ہونے کے بعد ہوتی ہے‘۔
ہم آج جب بھی پانی کی قلت کا شور سُنتے ہیں تو اُس کو نظر انداز کردیتے ہیں کیوں، کیونکہ ہمارے نلکوں میں آج بھی پانی موجود ہے، ہمارے کھیت اور کھلیانوں کو پانی میسر ہے۔ ہمارے پاس پینے اور استعمال کرنے کا پانی موجود ہے۔ اس لیے پانی کی اہمیت پر بات کرنے والوں کو ہم بیوقوف تصور کرتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا کنواں یعنی کے ڈیمز خشک ہونے کے قریب ہیں۔ پاکستان پانی کی قلت کے شکار پہلے تین ملکوں میں آ چکا ہے۔ ہم 1990 میں اُن ملکوں کی فہرست میں شامل تھے جس میں آبادی زیادہ اور پانی کم تھا، ہم نے اس وارننگ کو سنجیدہ نہیں لیا اور یوں 2005 میں ہم پانی کی قلت والے ملکوں کی فہرست میں آگئے لیکن ہم نے پھر اس صورتِ حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اب ہم اُن تین ممالک میں آگئے جہاں سب سے زیادہ پانی کی قلت ہے۔
ملک میں اگر یہی صورتِ حال رہی تو 2025 تک ہم قحط کے دروازے پر کھڑے ہوں گے۔ 1990 میں پاکستان کے ہر شہری کے لیے 5650 کیوبک میٹر پانی ہوتا تھا اب وہ ایک ہزار کیوبک رہ گیا ہے اور یہ 2025 تک صرف آٹھ سو کیوبک رہ جائے گا۔ ان تمام صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی باشعور انسان اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ پاکستان کے لیے ڈیم بنانا اس وقت کتنا ضروری ہے۔
وفاقی حکومت نے دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کا اعلان کردیا جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ لیکن پاکستان میں ہمیشہ ہر اچھے کام کی مخالفت ہوتی ہے اور اس کام کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کے اعلان کے بعد یہ تنقید شروع ہوگئی کہ تمام صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور سارے اسٹیک ہالڈرز کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہ وہی اعتراض ہے جو پہلے کالا باغ ڈیم کے بنانے پر بھی گیا تھا جس کی وجہ سے آج تک ڈیم کی تعمیر کا کام ہی شروع نہیں ہو پایا۔ اسے بھی اگر سیاست کی نظر کردیا گیا تو پاکستان بہت مشکل وقت سے دوچار ہوجائے گا۔
یہ تمام کام ایک منظم طریقے اور پروپیگنڈے کے تحت کیے جاتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو کسی طرح نقصان پہنچایا جائے۔ لبرلز اور بیرونِ ممالک فنڈڈ لوگ ہر اچھے منصوبے کو لسانیت، قومیت اور علاقوں کا مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے ہر اچھا کام تاخیر کا شکار ہوکر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
یاد رہے یہ پاکستان کی تمام نسلوں کیلئے ایک تاریخی خبر ہے اور ساتھ ہی یہ ہماری معیشت کیلئے بھی ایک مثبت محرک ثابت ہوگا جس سے نہ صرف 16 ہزار 500 ملازمتیں پیدا ہوں گی بلکہ 4 ہزار 500 میگا واٹ بجلی بھی پید اہوگی’۔
اس منصوبے سے 12 لاکھ ایکڑ کی زرعی اراضی بھی سیراب ہوگی جبکہ تربیلا ڈیم کی زندگی 35 برس مزید بڑھ جائے گی۔
دیامیر بھاشا ڈیم 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا منصوبہ ہے جس کی تعمیر پر آنے والی لاگت کا تخمینہ 15 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے اور تعمیر ہونے کی صورت میں اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے ڈیموں میں ہوگا لیکن یہ منصوبہ طویل عرصے سے تاخیر کا شکار تھا۔ اب جب کہ حکومت نے یہ اعلان کردیا کہ اس منصوبے کو شروع کیا جا رہا ہے تو ہم سب کو بطورِ پاکستانی اس خوش آئند فیصلے کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو ہرا بھرا اور خوشحال پاکستان دے کر جانا ہے، ہمیں اس پانی کی قلت کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اور ہر اُس عمل کی حمایت کرنی ہوگی جو پاکستان اور اس کے مستقبل کے لیے بہتر ہوں گے، جو عوام اور اس کی فلاح و بہبود کے لیے ہوں گے۔ یاد رکھیں پاکستان ہے تو ہم ہیں۔