اسلام آباد: انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنادی اور 4 کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو عمر قید کی سزا سنادی جب کہ اشتہاری ملزمان بانی متحدہ، افتخار حسین، محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں عمران فاروق کے ورثا کو دس دس لاکھ روپے معاوضہ دینے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ تمام مجرموں پر قتل، قتل کی سازش، معاونت اور سہولت کاری کے الزامات ثابت ہوگئے۔
عمران فاروق قتل کیس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی گرفتار کیے گئے جب کہ 4 ملزمان بانی متحدہ، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ثابت ہوا کہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم بانی ایم کیو ایم نے دیا، ایم کیو ایم لندن کے دو سینئر رہنماؤں نے یہ حکم پاکستان پہنچایا، ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے معظم علی نے قتل کے لیے لڑکوں کا انتخاب کیا، عمران فاروق کو قتل کرنے کے لیے محسن علی اور کاشف کامران کو چنا گیا، دونوں کو برطانیہ لے جاکر قتل کروانے کے لیے بھرپور مدد کی گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا مقصد تھا کہ کوئی بانی متحدہ کے خلاف بات نہیں کرسکتا اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانا بھی تھا، عمران فاروق قتل کیس دہشت گردی کے مقدمے کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو برطانیہ میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کیس میں برطانیہ نے بھی شواہد فراہم کیے اور وڈیو لنک پر مقتول کی اہلیہ سمیت برطانوی گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔
کیس کے برطانوی چیف انوسٹی گیٹر نے بھی اس کیس میں بیان ریکارڈ کرایا۔ برطانیہ نے پاکستانی حکومت کو جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی پر شواہد فراہم کیے اور کیس میں تعاون کیا تھا۔
ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔