علی وہ ہیں جو پہلے دِن سے نبی (علیہ السلام) کا ساتھ دیں، علی وہ ہیں جو ہِجرت کی رات بِستَرِ رسالت پر سوئے اور وہ بھی اُس وقت جبکہ مشرکین گھر کے باہِر دھات لگا کر قَتَل کے دَر پے ہوں، لیکن اللہ اور اُس کے رسول (علیہ السلام) پر ایمان ایسا کہ کہتے ہیں مجھے اُس رات سے زیادہ پُرسکون نیند کبھی نہ آئی.
علی کی شُجاعَت کا عالَم یہ تھا کہ ہر جنگ میں آگے آگے رہتے، چاہے وہ بَدَر ہو، اُحُد ہو، اَحزاب ہو، حُنین ہو یا دوسرا کوئی مَعَرکہ، اور خندَق کے موقع پر جب کوئی صحابی عَمَر بن عَبدِ وَدْ جیسے پہلوان کے مقابلے پر نہیں آتا تھا تب علی نے میدان میں اُتر کر اُس کو وَاصلِ جَہَنُّم کیا.
اور خیبر کے چرچے تو زبان زدِ عام ہیں جب رسول (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دونگا جو اللہ اور اُسکے رسول سے مُحبت کرتا ہے اور اللہ اور اُس کے رسول (علیہ السلام) اُس سے مُحبت کرتے ہیں، اور وہ فَتَح کیے بغیر واپس نہیں آئیگا اور اِسی موقع پر حضرت عُمر نے فرمایا کہ میں پوری زندگی علی پر رَشک کرونگا کہ علی کو اِتنی بڑی فضیلت مِلی اور اِسی جنگ میں علی نے مَرہَب جیسے سُورماء کو قَتَل کر کے خیبر فَتَح کیا جو کئی دِنوں سے فَتَح نہیں ہورہا تھا، اور مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت میں مِلا جس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آج علی کی وجہ سے لوگوں کو پیٹ بھر کھانا مِلا.
نبی (علیہ السلام) نے بَحُکمِ خُدا اپنی لَختِ جِگر فاطمہ جو سَیّدۃالنساءالعلمین ہیں اُن کے نکاح میں دیں، جن کی اولاد حَسَن اور حُسین جیسی ہوں، جو جنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور بیٹیاں زینب اور رُقیّہ جیسی با پَردہ خواتین ہیں.
بقول حضرت عائشہ کے نبی (علیہ السلام) سب سے زیادہ مُحبت فاطمہ اور علی سے کرتے تھے.
ایک موقع پر نبی (علیہ السلام) نے فرمایا علی تم سے صرف مؤمن محبت کرے گا اور بغض صرف منافق ہی رکھے گا.
علی کے عِلم کا عالم یہ تھا کہ تینوں خُلفاء یعنی حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان ہر مسئلے میں اِن سے مشورہ کرتے اور حضرت عُمر تو اللہ سے دُعا کرتے تھے کہ میں پناہ مانگتا ہوں ایسی مَجلس سے جِس میں مجھے کوئی مسئلہ پیش آئے اور علی میرے ساتھ نہ ہو، اور ایک اور موقع پر عُمر نے فرمایا کہ علی نہ ہوتے تو میں ہَلاک ہوجاتا.
ایک مرتبہ مولا علی مسجد میں سُورہے تو پیغمبرِ عالَم نے بہت مُحبّت کے ساتھ اُن کو اُٹھایا اور فرمایا قُم ابا تُراب (مَٹّی میں لپٹنے والے) اُٹھو، صحابہ کہتے ہیں علی کو یہ نام اِتنا پسند آیا کہ اِس کے بعد اُنھوں نے اپنی کُنیت ابُو تُراب رکھ لی، لیکن بَنو اُمیّہ کے کچھ بَد بَخت لوگ یہ نام لے کر حضرت علی کو حَقارَت سے یاد کرتے تھے، جس پر ایک صحابی سَہَل بن سَعد نے اُن لوگوں کو رسولِ خُدا (علیہ السلام) کی حدیث سُنا کر خاموش کروا دیا.
سخاوت ایسی کہ دَر سے کبھی کوئی غریب خالی ہاتھ نہیں لوٹتا، خلیفہ بنے تو عَدَل ایسا کہ شواہد نہ ہونے کی بناء پر صحیح ہونے کے باوجود خود کے خلاف فیصلہ قبول کیا,
بیتُ المال کو لوگوں میں انصاف سے تقسیم کر کے وہاں کی صفائی کر کے نماز پڑھتے اور اللہ کو گواہ بناتے کہ میں نے تیرا مال تیرے بندوں میں انصاف سے تقسیم کر دیا.
حضرت علی کہتے ہیں ابھی میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک آنکھ لگ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ رسول اکرم (صل اللہ علیہ والہ وسلم) سامنے تشریف فرما ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کَجَروی اور دُشمنی کا مشاہدہ کیا ہے۔ فرمایا کہ بد دعا کرو ؟ تو میں نے یہ دعا کی۔ خدایا مجھے ان سے بہتر قوم دیدے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دیدے۔
١٩ رمضان المبارک ٤١ھ میں عبدالرحمان ابن مُلجِم نے حضرت علی کے سَر پر تلوار سے وار کیا اور اُن کی دَاڑھی کو خون سے رنگ دیا اور اِس طرح وہ بقولِ رسول (علیہ السلام) کے دنیا کا بَد بخت شخص قرار پایا، اور اِس وار کے سبب مولا علی ٢١ رمضان المبارک ٤١ھ کو دنیا فانی سے رُخصت ہوگئے.
حضرت علی کی شہادت کے بعد حسن بن علی (رضی اللہ عنہما) لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے: اے لوگو! کل تم سے ایک ایسا شخص جدا ہوا ہے کہ پہلے لوگ اس سے سبقت نہ لے جا سکے، اور بعد والے لوگ اس کے مقام تک نہ پہنچ سکیں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کوئی لشکر بھیجتے تو اسے جھنڈا تھما دیتے، اور جب تک فتح نہ ہو جاتی وہ واپس نہ لوٹتا، جبریل (علیہ السلام) ان کے دائیں طرف اور میکائیل (علیہ السلام) ان کے بائیں طرف ہوتے تھے۔ یعنی علی (رضی اللہ عنہ) ،انہوں نے درہم و دینار نہ چھوڑے سوائے سات سو درہم کے جن سے وہ غلام خریدنے کا ارادہ رکھتے تھے.
"شاہِ مَرداں شیرِ یزداں قُوّتِ پروردگار
لاَ فَتَح اِلّا علی لاَ سَیف إلّا ذُوالفِقار”