اسلام آباد: علی زیدی نے عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ پر چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل کردی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا، سندھ حکومت کی جانب سے جاری رپورٹ 35 صفحات پر مشتمل جب کہ اصل رپورٹ 43 صفحات کی ہے، ایک جے آئی ٹی پر 4 اور دوسری پر 6 لوگوں کے دستخط ہیں۔
وفاقی وزیر علی زیدی نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں صرف جرائم کا ذکر کیا گیا، یہ نہیں بتایا گیا کس کے کہنے پر جرم ہوئے، عزیر بلوچ نے کہا آصف زرداری اور فریال تالپور کے کہنے پر سر کی قیمت ختم کی گئی، عزیر بلوچ نے خدشہ ظاہر کیا انکشافات کے بعد انہیں جان سے مار دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ذوالفقار مرزا کے بعد اویس ٹپی عزیر بلوچ سے کام لیتا تھا، کہا گیا آرٹیکل 63، 62 کے تحت میرے خلاف کورٹ جائیں گے۔
علی زیدی کا کہنا تھا، چیف جسٹس گلزار احمد مجھ سے جے آئی ٹی رپورٹ مانگیں، چیف جسٹس کراچی کے ہیں، انہوں نے خود بھی دیکھا شہر کے کیا حالات ہیں، چیف جسٹس تمام دستخط کنندہ کو بلائیں اور رپورٹ سے متعلق پوچھیں، سندھ حکومت کی رپورٹ میں 6 نام موجود نہیں، اصل رپورٹ میں رزاق کمانڈو کو مارنے کے لیے قادر پٹیل کے حکم کا ذکر ہے، جن لوگوں کا قاتلوں میں نام ہے، وہ آج بھی پارلیمنٹ میں گھوم رہے ہیں، ازخود نوٹس کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کروں گا۔
انہوں نے کہا، جے آئی ٹی پر کچھ دنوں سے بات ہورہی تھی، اللہ اللہ کرکے سندھ حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹ پبلک کردی، جے آئی ٹی میں ایک شخص متعدد قتل کا اعتراف کرتا ہے، جے آئی ٹی میں یہ چیز نہیں کہ کس کے کہنے پر کیا کارروائی کی گئی، نبیل گبول نے گزشتہ رات کہا جے آئی ٹی رپورٹ مکمل نہیں، عزیر بلوچ کا 164 کا بیان حلفی سب نے دیکھا، عزیر بلوچ نے کہا خدشہ ہے انکشاف کے بعد مجھے مار دیا جائے گا۔
وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی کا کہنا تھا بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ مشکل سے ریلیز کی گئی، بلدیہ فیکٹری جے آئی ٹی پورٹ میں پولیس کی نااہلی کا ذکر کیا گیا، رضوان احمد کی رپورٹ چنیسر گوٹھ کے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل، 2017 میں چیف سیکریٹری سے جے آئی ٹی رپورٹ مانگی، چیف سیکریٹری نے اس وقت مجھے رپورٹ دینے سے انکار کیا، چیف سیکریٹری کے انکار کے بعد میں نے عدالت سے رجوع کیا، سندھ حکومت نے عدالتی حکم کے باوجود رپورٹ پبلک نہیں کی، دہشت گردوں کا سرغنہ تھانے داروں کا تبادلہ کراتا تھا۔