اللہ قرآن میں فرماتا ہے،
اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاوُ گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا۔ (سورۃ النساء، آیت 135)
ایک اور جگہ ارشادفرمایا،
اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اللہ تمھیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ سُنتا اور دیکھتا ہے۔ (سورۃ النساء: آیت 58)
مالِ غنیمت تقسیم ہوتا ہے ہر ایک کے حصے میں ایک ایک چادر آتی ہے، حضرت عمر وقت کے خلیفہ ہیں انہوں نے دو چادریں پہن رکھی تھیں۔ ایک سادہ سا آدمی کھڑا ہوا اور وقت کے حاکم سے سُوال کیا کہ سب کے پاس ایک ایک چادر ہے آپ کے پاس دو کیسے آئیں؟ یہ سُن کر لوگ ناراض ہوگئے کہ حاکمِ وقت سے سُوال کرتے ہو؟ حضرت عمر نے انہیں روک دیا اور خود وضاحت دی کہ یہ دوسری چادر میرے بیٹے کے حصے کی ہے جو اُس نے مجھے تحفہ میں پیش کردی۔
حضرت علی خلیفہ تھے، اُن کے گھوڑے کی زرہ گر گئی جو یہودی نے اٹھا لی۔ مقدمہ قاضی کی عدالت میں گیا۔ قاضی نے وقت کے حاکم سے سُوال کیا کہ اگر یہ زرہ آپ کی ہے تو گواہ پیش کریں۔ حضرت علی نے اپنے غلام قنبر اور بیٹے حضرت حسن کی گواہی پیش کی، قاضی نے گواہی ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ شریعت کے مطابق اپنوں کی گواہی قبول نہیں۔ یوں یہ مقدمہ ایک یہودی جیت گیا اور وقت کا حاکم وہ مقدمہ ہار گیا۔ حضرت علی نے وہ فیصلہ نہ صرف قبول کیا بلکہ زبان پر کسی قسم کا شکوہ لائے بغیر وہ زرہ اُس کے حوالے کردی۔ انصاف کا یہ عمل دیکھ کر وہ یہودی اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام میں داخل ہوگیا اور مرتے دم کر حضرت علی کے غلاموں میں شمار کیا جانے لگا۔
صرف اسلامی شخصیات ہی نہیں بلکہ ایسی مثالیں موجودہ دور میں دیگر ممالک میں بھی ہمیں نظر آتی ہیں۔ ۲۰۱۴ میں امریکا کی ایک جج ٹریسی ہنٹر کو صرف اپنے بھائی کی مدد کرنے اور اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کرنے پر سزا ہوئی اور چھ مہینے کے لیے جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ کچھ سال پہلے کرپشن کرنے پر چین کے جج کو بھی سزائے موت سُنا ئی گئی تھی۔
کوئی بھی معاشرہ ترقی انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی کرسکتا ہے، انصاف کے بغیر ترقی دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔انصاف ہر اثر و رسوخ اور پوزیشن سے بالاتر ہے۔ انصاف کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہ کالا دیکھتا ہے نہ گورا، نہ امیر دیکھتا ہے نہ غریب، نہ رشتے دار دیکھتا ہے نہ دشمن۔ انصاف صرف اور صرف حق اور سچ دیکھتا ہے۔ انصاف ہر طرح کے جذبات سے بالا ہوتا ہے۔
پاکستان میں اگرسیاستدانوں کو سزائیں مل سکتی ہیں، فوجیوں کو سزائیں مل سکتی ہیں، کاروباری حضرات اور سرکاری افسران کو سزائیں مل سکتی ہیں تو پھر کسی جج کو کیوں نہیں؟ انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، کوئی بھی کُرسی، کوئی بھی پوزیشن،کوئی بھی شخص انصاف سے بالاتر نہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے اوپر انصاف ہے۔ کسی دوسرے مہذب معاشرے میں اگر کسی جج کے خلاف کوئی ریفرینس دائر کیا جاتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری سے خود ہی سبکدوش ہوجاتا ہے جب تک کہ خود کو بے قصور ثابت نہ کردے۔
کیا پاکستان میں بھی ایسی روایت کو جنم نہیں لینا چاہیے؟ کیا کسی حاضر سروس جج کے خلاف اگر الزامات ہوں تو اُسے عام شہری کی طرح ہی اُن الزامات کا سامنا کرکے خود کو بے قصور ثابت نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ کُرسی پر براجمان بھی رہو اور اپنے خلاف مقدمے کی سماعت پر اثر و رسوخ کے ذریعے اثر انداز بھی ہوں؟ پاکستان کئی سالوں کے بعد بہتری کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اس ملک کو جناح کا پاکستان بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور انصاف کو سب سے برتر جان کر اپنے اپنے فرائض انجام دے۔