بغیر کسی انکوائری، بغیر کسی ثبوت کے فرض کر لیا گیا ہے کہ عارف وزیر کو پاکستانی اداروں نے مارا یا مروایا. ایک طرف علی وزیر کا دعویٰ کہ اس کے خاندان کے 15 افراد جنگجوؤں نے مارے اور دوسری طرف انہی جنگجوؤں کے ساتھ نبرد آزما اداروں کو عارف وزیر کی موت کا ذمہ دار ٹھہرانا عجیب منطق ہے. نسل پرستی میں گھٹنوں گھنٹوں دھنسے لوگوں کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن کچھ ایسے لوگوں کو بھی اس پراپیگنڈے سے متاثر دیکھا جو بظاہر نسل پرستی کی وبا میں مبتلا نہیں اور جنہیں "پشتون وطن” کا تڑکا نہیں لگا، ایسے لوگ جمہوریت، آزادی اظہار وغیرہ کے چکر میں آکر بغیر کسی ثبوت کے اپنے اداروں کو نشانہ بنانے لگ جاتے ہیں اور اپنے اس طرز عمل کو آزادی اظہار کا نام دے کر خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن سمجھ رہے ہوتے ہیں، ایسے معاملات میں بالعموم bandwagoning ہوتی ہے. جسے اردو میں بھیڑ چال کہا جاتا ہے، عارف وزیر نے کچھ عرصہ پہلے ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے دیگر مخالفین کو کھلی دھمکیاں دی تھیں کہ اگر وہ اشرف غنی کی صدارت کو قبول نہیں کریں گے تو پی ٹی ایم ان کا جینا حرام کر دے گی.
کیا یہ ممکن نہیں کہ ان پر حملے میں اشرف غنی کے مخالفین شامل ہوں؟ کچھ عرصہ سے پشتون تحفظ موومنٹ منظر سے غائب ہو رہی تھی، خاص طور پر افغان طالبان کے امریکا سے معاہدے کے بعد بالعموم پشتون خود کو طالبان کے ساتھ فاتح کے طور پر کھڑا محسوس کر رہے تھے، بھارت کو بھی افغانستان میں بد ترین حزیمت اٹھانا پڑی، شاید ہی آئی ایس آئی کے لگائے گئے زخموں کا بھارت مداوا کر پائے، اس کی سب پراکسیاں ایک بار پھر سیاسی منظر نامے میں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں، گزشتہ ماہ اے این پی نے پشتون جرگہ بلا کر منطور پشتون سے پشتونوں کے حقوق کی واحد علمبردار قوت ہونے کا علمبردار ہونے کا زعم بھی چھین لیا ہے، اے این پی ایک قومی سیاسی اور پارلیمانی جماعت ہے، اس کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ اگر کوئی جماعت متاثر ہوئی تو وہ اے این پی ہے. پشتونوں کے جائز مسائل کو اے این پی سے بہتر کوئی نہیں اجاگر کر سکتا، منظور پشتین کا اپنی تحریک پر کوئی کنٹرول نہیں رہا، بیرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت ہونے کے بعد اس کی حیثیت بالکل ہی متنازعہ ہو گئی ہے جبکہ اے این پی کی جہاندیدہ قیادت سے کسی بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کوئی امکان نہیں، پشتون جرگہ کا انعقاد جس میں حکمران جماعت پی ٹی آیی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بھی بلایا گیا تھا، اس میں پی ٹی ایم بالکل ہی بے حیثیت ہو کر رہ گئی، ایسے حالات میں ہمیشہ لاشوں کے سودے کیے جاتے ہیں، اس بات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا کہ عارف وزیر کو بھارت نے اپنے ایجنٹوں سے مروا دیا ہو، را کے قبائلی اضلاع میں سرگرم جنگجوؤں سے مراسم کوئی راز کی بات نہیں، عارف وزیر کی موت کا پاکستانی اداروں کو دھیلے کا فائدہ نہیں تو وہ کیوں اسے ماریں یا مروائیں گے؟
اس سے پاکستانی اداروں کو کوئی ایسا غیر معمولی خطرہ بھی نہیں تھا کہ اس کو خاموش کرایا جاتا ساری دنیا کا اصول ہے کہ کسی گمنام قتل کا سراغ لگانے کے لئے دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کس کو ہے، میری نظر میں اس کا فائدہ پی ٹی ایم اور بھارت کو ہے، تاہم یہ ایک مفروضہ ہے. عارف وزیر کے قتل کی تحقیقات ہونی چاہئے اور قاتلوں کو بے نقاب کرنا چاہیے. عارف وزیر کے نظریات جیسے بھی تھے وہ ایک پاکستانی شہری تھا اور اس کی موت کے پیچھے جو بھی عامل اور عوامل تھے انہیں سامنے لانا ریاست کی ذمہ داری ہے، تاہم جب تک قتل کے محرکات اور قاتل سامنے نہیں آ جاتے محض مفروضوں کی بنیاد پر قومی سلامتی کے اداروں کو ڈھکے چھپے لفظوں یا براہ راست ملزم ٹھہرانا ایک انتہائی نامعقول حرکت ہے، ہمیں اس سے بچنا چاہئے اور دوسروں کو بھی سمجھانا چاہیئے.