کراچی۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے گجر اور اورنگی نالوں کے کناروں سے تجاوزات کے خاتمے کے باعث بے گھر ہونے والے تمام 6500 خاندانوں کو 80 مربع گز کے پلاٹ الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ متاثرہ افراد بہت غریب ہیں لہذا وہ اپنے مکانات کی تعمیر کرنے سے قاصر ہیں لہڈا ہم سپریم کورٹ آف پاکستان سے گذارش کریں گے کہ وہ بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والے 10 ارب روپے فراہم کریں تاکہ انہیں 6500 سے زائد مکانات و سڑکوں کی تعمیر، ترقیاتی کاموں، ضلع ملیر میں نکاسی آب اور پانی کی فراہمی کے انفراسٹیکچر اور دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر نکاسی آب کے نظام کی تعمیر پر خرچ کئے جاسکیں کیوں کہ نکاسی آب کے بہتر انفراسٹیکچر نہ ہونے کی وجہ سے علاقوں میں شہر اور قصبے عموماً ڈوب جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بات جمعۃ المبارک کے دن وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک اہم اور پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ان کے ہمراہ ان کی کابینہ کے اراکین سید ناصر شاہ سہیل انور سیال اور مشیر قانون مرتضی وہاب بھی تھے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے صوبائی حکومت کو گجر اور اورنگی نالہ کے بے گھر لوگوں کو مکانات کی فراہمی کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت متاثرہ لوگوں کو ماہانہ 15000 روپے کی شرح سے دو ماہ کرایہ دینے پر رضامند ہے اور انہوں نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیموں میں انہیں اپارٹمنٹ فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے منشور میں بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنا شامل ہے لہذا یہ ہماری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ہم متاثرہ لوگوں کو گھر فراہم کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر بے گھر ہونے والے خاندانوں کو تیسر ٹاؤن یا ایل ڈی اے اسکیم 42 میں 80 گز کے پلاٹ فراہم کئے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس پیسہ یا وسائل نہیں تھے لہذا وہ نالوں کے پشتوں کے ساتھ ہی آباد ہوگئے اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس 80 مربع گز مکان تعمیر کرنے کے کوئی وسائل نہیں ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کے وسائل بھی محدود ہیں لہذا صوبائی کابینہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں تین درخواستیں دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(1) درخواست میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے استدعا کی جائے گی کہ گجر اور اورنگی نالہ کے ساتھ انسداد تجاوزات مہم کے دوران جو 6500 خاندان متاثر ہوئے ہیں ، حکومت سندھ نے ہر خاندان کو 80 مربع گز کا پلاٹ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مکان کی تعمیر پر ہر یونٹ پر 10 لاکھ روپے لاگت آئے گی اور سڑکوں کے پورے انفراسٹرکچر کی تعمیر، نکاسی آب اور پانی کی فراہمی کے ساتھ یہ رقم ساڑھے 3 ارب روپے بنتی ہے ، لہذا بحریہ ٹاؤن سے وصول کی جانے والی رقوم مکانات کی تعمیر کے لئے فراہم کی جاسکتی ہے۔
(2) دوسری درخواست ڈسٹرکٹ ملیر کے بارے میں ہوگی جہاں اس علاقے کی ترقی کے لئے پانی، سیوریج، سڑکوں اور برساتی پانی کے نالوں سمیت بڑی تعداد میں ترقیاتی اسکیمیں شروع کرنا ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت کو فنڈز کی کمی درپیش ہے، لہذا بحریہ ٹاؤن سے وصول کی جانے والی رقوم کو ملیر ضلع میںترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کے لئے حکومت سندھ کو دی جاسکتی ہے۔
(3) تیسری درخواست میں یہ بتایا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے واقع مختلف اضلاع جیسے بدین، میرپورخاص، سانگھڑ اور دیگر میں جب کبھی بھاری بارش ہوتی ہے تو سیلاب آتا ہے، وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ محکمہ آبپاشی نے 2013 میں نکاسی آب کی ایک اسکیم تیار کی تھی۔ لیفٹ بینک ایریا سے بارش کے پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے اسکیم کو پورے زور و شور سے شروع نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیسری درخواست میں بھی سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے گی کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے فنڈز کو بائیں کنارے کی نکاسی آب کی اسکیم کے لئے دیئے جائیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان تمام اسکیموں پر لگ بھگ 10 ارب روپے لاگت آئے گی،لہذا ہفتہ کی صبح تین درخواستوں کے ذریعے سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے گی کہ وہ بحریہ ٹاؤن سے وصول ہونے والے 10 ارب روپے کو ان اسکیموں کے لئے دے دیں تاکہ انھیں بروقت مکمل کیا جاسکے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر سپریم کورٹ مانیٹرنگ کے لئے جج مقرر کرے یا مذکورہ اسکیموں پر عمل درآمد کی خود نگرانی کرے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
نسلہ ٹاور: نسلہ ٹاور کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم رہائشیوں کے سرمایہ کاری کو بچانے کے لئے ایک راستہ چاہتے ہیں جنھوں نے وہاں اپارٹمنٹس خریدے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیسلہ ٹاور کو ریگیولررائیز کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بنی گالہ کو ریگیولررائیز کیا گیا ۔
وزیراعلیٰ سندھ نے نسلہ ٹاور کی تعمیر میں اپنی [سندھ] حکومت کی مداخلت کے تاثر کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین 1950 میں الاٹ کی گئی تھی اور پھر اس کی حیثیت ایک منظوری یا دوسری منظوری کے ذریعے بدلی جاتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ کنٹونمنٹ اتھارٹی نے بھی اس کی منظوری دے دی تھی اور ایس بی سی اے نے بھی معمولی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی افسر کی غلطی کی وجہ سے ٹاور کے تمام رہائشیوں/ الاٹیز کو سزا دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ رہائشی سپریم کورٹ میں نظرثانی کیلئے گئے ہیں اور اور انکی حکومت بھی نظرثانی کی درخواست کرے گی۔
انکوائری کمیشن: سید مراد علی شاہ نے انکشاف کیا کہ صوبائی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک ریٹائرڈ جج یا گریڈ 21 کے افسر کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دے جوکہ زمین کے الاٹمنٹ، لے آؤٹ پلان کی منظوری اور تمام متنازعہ منصوبوں کیلئے اضافی زمین دینے اور مجموعی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کا تعین کریں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ انکوائری کمیشن اپارٹمنٹس ، دکانوں ، شورومز وغیرہ کی الاٹمنٹ کی جانچ کرے گا اور اس میں ملوث افسر / منتخب نمائندوں کی نشاندہی کرے گا ۔ مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ انکوائری کمیشن اس قانونی پوزیشن کا بھی جائزہ لے گا کہ آیا ایسے منصوبوں کو ریگیولرائیز کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
سوال و جواب: آرمی حکام کی جانب سے پارلیمنٹیرینز کو دی گئی بریفنگ سے وزیر اعظم کی عدم موجودگی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور پارلیمنٹیرین کو خطے کی سیکیورٹی صورتحال خاص طور پر افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد کے بارے میں بریفنگ دی جارہی تھی ۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم اجلاس میں شریک ہوتے تو پیپلز پارٹی نے بریفنگ کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی نہیں دی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اس طرح کی دھمکی دینے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہی اس سوال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سکیورٹی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا یہ واضح کیا گیا کہ کراچی شہر افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد متاثر ہوگا۔
صدارتی نظام: وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کے تجویز کردہ صدارتی نظام کے متعارف کرانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ [وزیر اعظم] اس بات پر الجھے ہوئے ہیں کہ کون سا نظام اپنانا چاہئے۔ ایک بار جب اس نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ مسلمان غیر مسلم اقوام کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے مملکت کو اپنا لیا اور پھر کہتے ہیں کہ ریاست مدینہ کو اپنانا بہترین نظام ہے اور پھر انہوں نے کہا کہ چینی طرز حکومت سب سے زیادہ کامیاب رہی ہے۔وزیر اعظم کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی واضح نہیں ہیں کہ کون سا نظام بہتر ہے۔
مراد علی شاہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پارلیمانی شکل ایک بہترین سسٹم ہے جو پوری دنیا میں رائج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین بھی پارلیمانی نظام کی اجازت دیتا ہے اور ہمیں اسے مزید مضبوط بنانا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ نجی دورے پر بیرون ملک جارہے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں واپس آجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی پی پی بھی بیرون ملک جارہے ہیں لیکن وہ کہاں جارہے ہیں اور کیوں جارہے ہیں اس کا جواب ان کے پاس ہوسکتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آصف علی زرداری کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی صحت کی خرابی کے باوجود بجٹ اجلاس میں شرکت کی اور اس کی وجہ سے ان کی صحت پر اثر پڑا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو اپنے والد سے ملنے اسلام آباد سے واپس آئے ہیں اور پھر وہ کشمیر جائیں گے۔
آبپاشی کی زمین: ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ان مکانات کو آبپاشی کی اراضی سے بلڈوز کردیا گیا ہے جس نے پانی کے ہموار بہاؤ کو متاثر کیا ہے ، بصورت دیگر کوئی مکان بھی نہیں ہٹایا گیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہاں اگر کسی گھر کو بلڈوز کردیا گیا تو اس کے مالک کو معاوضہ دیا جائے گا۔
ماڑی پور: ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سڑک کی تعمیر کے لئے ماڑی پور سے صرف وہ دکانیں جنہیں توسیع کے ذریعے آگے بڑھایا ہوا تھا اور کچھ غیر قانونی تعمیرات کا بلڈوز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماڑی پور روڈ شہر کی ایک اہم شاہراہ ہے اور اس کا کام مکمل ہوچکا ہے اور ہم نے ابھی اس کا باقاعدہ افتتاح کرنا ہے۔ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ نے گجر ، اورنگی نالوں اور نیسلا ٹاورز کے مقدمات پر قانون کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون غیر قانونی الاٹمنٹ ، تعمیرات یا بڑی یا معمولی خلاف ورزیوں کی اجازت نہیں دیتا ہے ، لہذا سپریم کورٹ نے انہیں غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ان کی حکومت نے کراچی میں بڑے ترقیاتی کام شروع کردیئے ہیں۔ ہم نے شاہراہ فیصل ، طارق روڈ ، حب چوکی روڈ ، شہید ملت روڈ اور مختلف فلائی اوور تعمیر کیے ہیں لیکن ہاں ، ابھی بھی شہر کے انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جس کے لئے نہ ہی صوبائی حکومت اور نہ ہی وفاقی [حکومت] کے پاس سرمایہ کاری کے لئے وسائل ہیں ، لہذا ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ جیسی ڈونر ایجنسیوں کو شہر کی ترقی میں اپنا شراکت دار بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 65 بلین روپے کی ریڈ لائن منصوبے اور 35 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے آئندہ چند ماہ میں ییلو لائن منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پی پی پی موڈ پر واٹر ٹریٹمنٹ کے دو منصوبے اور ملیر ایکسپریس وے کا آغاز کیا ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ان کی حکومت اس مالی سال کے دوران شہر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر 109 ارب روپے خرچ کرے گی۔