ایران میں 13 سال قبل لاپتہ ہوجانے والے ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ رابرٹ لیوینسن کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام کی حراست میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
ان کے خاندان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سی آئی اے کی ایما پر ایک غیر منظور شدہ مشن میں مصروف تھے۔
ان کی مبینہ ہلاکت پر ان کے خاندان نے کہا ہے کہ ’ہمارے لیے اپنا درد بیان کرنا ناممکن ہے‘ اور یہ بھی عندیہ دیا کہ ان کی ہلاکت کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے ہوئی ہوگی۔
لیوینسن امریکی تاریخ کے سب سے طویل ترین عرصے تک یرغمال رہنے والے شخص ہیں جو سنہ 2007 میں ایران کے جزیرہ کیش سے لاپتہ ہوئے تھے۔
وہ سنہ 1998 میں ایف بی آئی سے ریٹائر ہوئے تھے مگر ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک نجی تفتیش کار کے طور پر کیش میں کام کرتے رہے اور خطے میں جعلی سگریٹیں بنانے کے کاروبار پر نظر رکھتے تھے۔
امریکی حکام کو شک ہے کہ انھیں ایرانی انٹیلیجنس نے اس لیے اغوا کیا تاکہ انھیں واشنگٹن سے سودے بازی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو وائٹ ہاؤس میں کہا ’میں اس حوالے مکمل باخبر ہوں، وہ ایک نفیس شخص تھے اور وہ ایک زبردست خاندان ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’رابرٹ لیوینسن ایک بہترین انسان تھے اور کافی عرصے سے بیمار تھے۔ انھیں حراست سے قبل بھی طبی مشکلات کا سامنا تھا۔‘
’یہ اچھی بات نہیں ہے مگر میں قبول نہیں کروں گا کہ وہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ انھوں نے ہمیں نہیں بتایا ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔‘
یاد رہے کہ نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ ایران لیوینسن کو امریکہ کے حوالے کر دے۔
لیوینسن خاندان نے بدھ کو کہا کہ انھیں امریکی حکام سے ایسی معلومات موصول ہوئی تھیں جن سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ ایرانی حراست میں ہلاک ہوگئے ہیں۔
’ہمارا خاندان اپنی باقی زندگی اس زبردست شخص کے بغیر گزارے گا۔ یہ ایک نئی حقیقت ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر کورل سپرنگز سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کو سنہ 2010 اور 2011 میں ان کی زندگی کے ثبوت کے طور پر تصاویر اور ایک ویڈیو بھیجی گئی تھی مگر ان کی لوکیشن خفیہ رکھی گئی۔
تصاویر میں ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی جبکہ وہ نارنجی رنگ کا قیدیوں کا لباس پہنے ہوئے تھے جیسا کہ گوانتانامو بے کے قید خانے میں امریکا کے قیدیوں کا ہوتا ہے۔
ان کی گردن میں مختلف پیغامات لٹکے ہوتے تھے جن میں سے ایک میں لکھا تھا کہ ’میری مدد کیوں نہیں کر سکتے؟‘
ماہرین نے پایا کہ کہ ویڈیو پاکستان سے بھیجی گئی تھی جبکہ تصاویر افغانستان کے ایک اٹرنیٹ ایڈریس سے بھیجی گئی تھیں۔
پس منظر میں پشتون شادیوں کی روایتی موسیقی بھی سنی جا سکتی تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لیوینسن ان دونوں ممالک میں سے کسی ایک کی قید میں تھے۔
امریکی حکام کے مطابق یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایرانی حکومت نے تصاویر اس طرح بھیجی ہوں کہ لیوینسن کی گمشدگی کا الزام کسی اور پر ڈالا جا سکے۔