چہار سو رنگ بکھرے ہیں، قہقہے، مسرت، آنکھیں دمک رہی ہیں، خوشیاں ہمک رہی ہیں کہ آج ہولی کا تہوار ہے۔ محبت کا تہوار۔
رُت بدلی، نیا موسم آیا، نئی خوشیاں لایا۔ سرما کا اختتام ہوا اور بہار نے دستک دی۔
سندھ ہو یا ہند، یا دنیا کا کوئی اور گوشہ، ہندو برادری اس تہوار کو بڑے دل کش انداز میں مناتی ہے، سب مل بیٹھتے ہیں، گلے شکوے ختم، ٹوٹے رشتے بحال ہوجاتے ہیں۔
البتہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس برس ہولی نہیں منائی۔ نہیں صاحب، نہ ہی کسی سے ملاقات کی، نہ ہی کوئی ٹوٹا رشتہ بحال کیا۔
اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر مودی کے ہاتھ اور لباس سرخ رنگ سے رنگا ہوا ہے۔
مگر گجرات کے قسائی کے نام سے معروف، آر ایس ایس کے پروردہ نریندر مودی کے ہاتھوں اور لباس پر تہوار کا رنگ نہیں۔ یہ تو خون کی ہولی کے دھبے ہیں جناب۔
وہ خون کی ہولی، جو بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر میں کھیلی۔ کشمیریوں کی آزادی سلب کر لی گئی اور ظلم کی تاریکی کو دبیز کر دیا گیا۔
کشمیر کی تاریخ پر یوں ہی ظلم اور جبر کی تاریکی چھائی ہے۔ اور یہ داستان سات عشروں پر محیط ہے، مگر مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرکے اس ظلم کی انتہا کر دی۔
کشمیر میں انسانی آزادی سلب کرکے ایک ایسا المیہ جنم دیا، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
مگر یہ کہانی فقط کشمیر تک محدود نہیں۔ ایسے میں، جب ہند اور سندھ میں ہندو برادری رنگوں کا تہوار منا رہی ہے، مودی سرکار نے متنازع شہریت بل کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔
دہلی میں ہونے والے فسادات نے گجرات فسادات کی یاد تازہ کردی اور زخموں کو پھر ہرا کر دیا۔
یہ عالمی اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ مودی کے مظالم پر روک لگائیں اور کشمیریوں کو وہ حقوق مہیا کیے جائیں، جو ہر انسان کا حق ہیں۔
ماسوائے اپنے حق کے، کشمیریوں کا مطالبہ بھی کیا ہے؟