کورونا کی وبا پھیلتے ہی مزدور طبقے کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ہے، روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے حضرات اس مشکل گھڑی میں بہت ہی بے بس دکھائے دیتے ہیں۔ بھوک بڑی ظالم شے ہوتی ہے یہ کوئی مذہب، کوئی مسلک، کوئی قومیت، کوئی زبان اور فرقہ نہیں دیکھتی۔ بھوک نہ بچہ دیکھتی ہے نہ بڑا اور نہ کسی عورت کا لحاظ کرتی ہے اور نہ ہی مرد کا۔ یہ کمبخت بھوک کسی سے ڈرتی بھی نہیں۔
کورونا وائرس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا اور بڑے بڑے سورماوُں کو اس نے تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔ جو کل تک خدائی لہجے میں بات کرتے تھے آج وہ بے بسی کی مورت بنے ہوئے ہیں۔ یہ وائرس نے مودی کی شدت پسندی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی لیکن ان سب کے باوجود مودی کے بھارت میں میڈیا اپنی حرکتوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہا۔
بھارتی میڈیا نے پاکستان کے سب سے بڑے اور معتبر فلاحی ادارے سیلانی ویلفئیر پر جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگایا کہ سیلانی ویلفئیر نے کراچی کے ہندوں برادری کو راشن دینے سے انکار کردیا۔ ساتھ آل پاکستان ہندو پنچایت کمیٹی کے سربراہ روی دوانی کی ایک ویڈیو چلائی جس میں وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ‘ایک خبر گردش کر رہی ہے’ کہ سیلانی ویلفئیر نے غیر مسلموں کو راشن دینے سے منع کردیا، اس خبر کی اُس وقت تک کوئی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
وائس آف سندھ نے روی دوانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے خود بتایا کہ وہ خبر بے بنیاد تھی اور پاکستان میں سب کمیونیٹیز ایک ہیں اور اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سیلانی ویلفئیر، ایدھی، عالمگیر، جے ڈی سی وغیرہ پاکستان میں مقیم اقلیتوں کی مدد کر رہے ہیں اور انہیں بڑی عزت و احترام سے راشن دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے معروف تاجر، سینئیر سیاستدان اور بیت المال سندھ کے سربراہ حنید لاکھانی نے خود لیاری جا کر اقلیتی برادری میں تین سو سے زائد خاندان میں راشن اوردیگر ضروریات کی اشیاء تقسیم کیں۔ حنید لاکھانی نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستانی ایک ہیں اور سب کی رگوں میں ہرے رنگ کا خون دوڑ رہا ہے۔ ہم چاہے کسی بھی مذہب سے ہوں، اس مصیبت کے وقت ایک دوسرے کا سہارا بن کردنیا کو پیغام دیں گے کہ ہم متحد ہیں۔
نہ صرف یہ تنظیمیں بلکہ کراچی کی اور تنظیمیں بھی بلا تفریق رنگ، نسل، فرقہ، مذہب اور زبان کے انسانیت کی مدد کرنے میں دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ جوائننگ ہینڈز کی چئیرپرسن سبین میمن اور چیف ایکزیکیٹیو ڈائریکیٹر ساجد حبیب نے ہمیں بتایا کہ ہم تمام پاکستانیوں میں راشن تقسیم کر رہے ہیں، بھوک جب لگتی ہے تو وہ مذہب نہیں دیکھتی، اس مشکل کی گھڑی میں ہم سب پاکستانی ایک ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ جوائننگ ہینڈز ہر سال عید کے تہوار پر خصوصاً غیر مسلموں میں تحائف اور کپڑے تقسیم کرتی ہے تانکہ وہ بھی مسلمانوں کی اس خوشی میں شامل ہوسکیں۔
اے کے سی ٹرسٹ کے سربراہ علامہ بلال سلیم قادری نے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے لوگوں کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور دیکھیں ہم کراچی کے ہر ضرورت مند خاندان میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ شیوہ ہی نہیں کہ وہ خود کھائیں اور اقلیتوں کو محروم رکھیں۔
کراچی کے ایک معروف تاجر اور سماجی شخصیت عرفان ڈیڈھی نے وائس آف سندھ کو بتایا کہ وہ اور اُن کے ساتھی ہزاروں ضرورت مندوں کو روزانہ کی بنیاد پر تیار کھانا تقسیم کر رہے ہیں، انہیں مذہب، مسلک، فرقے اور زبان سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ کو بھوک لگی ہے بس ایک کال کریں اور تیار کھانا آپ کے گھر تک پہنچ جائے گا۔
طلوعِ سحر فاوُنڈیشن کی جانب سے ضرورت مندوں میں سینکڑوں کی تعداد میں راشن اور کیش رقم تقسیم کی گئی۔ طلوعِ سحر فاوُنڈیشن کے عہدیدار حارث حیدر اور ڈاکٹر یامین بوچا کا کہنا ہے کہ ہم انسانیت پر یقین رکھتے ہیں، مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا۔ مسلماںوں کا یہ طریق ہی نہیں کہ وہ مشکل حالات میں اپنی اقلیتی برداری کو تنہا چھوڑ دیں۔
احمد باوا اور سید فہد کی سربراہی میں ڈیلیور کراچی کے نام سے ایک چین چلائی گئی ہے جو کراچی میں ہر ضرورت مند کو کھانا پہنچا رہے ہیں۔
یہ تو بات ہوگئی مسلمانوں کی اب بات کرتے ہیں غیر مسلموں کی۔ کراچی میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی ضرورت مندوں میں بلا رنگ، نسل، فرقے اور قومیت کے صرف اور صرف انسانیت کی خدمت کے جذبے کے تحت راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ مہر فاوُنڈیشن کے سربراہ مہیش کوچرا اور ان کے ساتھی کرشنا مہیشوری، ہندو، مسلمان اور عیسائیوں میں راشن تقسیم کرکے بھارت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہینگے۔
دنیا نے کورونا جیسی ظالم وبا سے سبق سیکھا، لیکن بھارتی میڈیا کی ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پن میں ذرا سا فرق نہیں آیا۔ پاکستانی قوم ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مصیبت و آفت میں ہم پہلے سے بھی زیادہ متحرک اور متحد ہوجاتے ہیں۔ ان تمام فلاحی اداروں کو سلام پیش کرتا ہوں جو اپنے عمل سے ثابت کر رہے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں۔