لداخ میں چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے ملک کے ریٹائرڈ فوجی افسران، سیاست دانوں اور عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
جمعے کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لداخ میں پیش آنے والے واقعے سے متعلق وضاحت کے لیے بیان جاری کیا تھا کہ چین گلوان وادی میں داخل نہیں ہوا اور نہ ہی بھارت کی کسی چوکی پر قبضہ ہوا۔ تاہم اس کے بعد بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر مودی کے اس بیان کو حزب اختلاف کے سیاست دانوں، بھارتی فوج کے سابق اعلیٰ افسران اور عام شہریوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ModiSurrendersGalwanValley# (مودی نے گلوان وادی میں شکست تسلیم کرلی) کا ہیش ٹیگ سے ٹرینڈ چلایا گیا جو ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے بھی اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ وزیر اعظم چینی جارحیت کے خلاف اپنے علاقوں سے دست بردار ہوگئے۔ اگر زمین چینیوں تھی تو ہمارے فوجی کیوں مارے گئے؟ وہ کہاں مارے گئے۔ واضح رہے کہ 2013 میں لداخ میں دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آنے کے بعد مودی نے اپنی انتخابی مہم میں اس وقت کی کانگریسی حکومت کو رگیدا تھا اور چین کو سبق سکھانے جیسے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی فوج کے متعدد سابق اعلیٰ افسران نے بھی گلوان وادی میں بھارت کو ہونے والی ہزیمیت پر غصے اور مایوسی کا اظہار کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کور کمانڈر اور بھارت کی جنوبی کمانڈ کے کمانڈر رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل رامیشور رائے نے نریندر مودی کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’’آج انتہائی بدقسمت دن ہے۔ میں شکر ادا کرتا ہوں کے ریٹائرڈ ہوگیا اور میرا بیٹا فوج میں نہیں ہے۔‘‘
رامیشور رائے کا کہنا تھا کہ اپنی زندگی کی چار دہائیاں اس ملک سرحدوں کی حفاظت پر صرف کیں اور آج یہ دن دیکھنا پڑرپا ہے کہ بھارت نے چین کی جانب سے مشرقی لداخ ایل اے سی میں کی گئی تبدیلیاں تسلیم کرلی گئی ہیں۔ آج کا دن ہر (بھارتی) فوجی کے لیے افسوس کا دن ہے۔ جنرل رامیشور کے اس بیان کو ٹوئٹر پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن متعدد سابق فوجی افسران نے ان کی حمایت کی۔
بھارت کے ریٹائرڈ فوجی افسروں کی تنظیم کے چیئرمین میجر جنرل ستبیر سنگھ نے جنرل رامیشور کی ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل رائے نے پھر بھی نرم الفاظ استعمال کیے ہیں۔ وزیر اعظم کے بیان نے مجھے وحشت زدہ کردیا ہے کہ اس سرحد پر دفاع کے لیے ساز و سامان ہی دست یاب نہیں۔
بھارتی فوج میں تذویراتی امور کے ماہر اور تربیتی اداروں سے وابستہ فوج کے سابق مشیر لیفٹننٹ جنرل پرکاش مینن نے مودی کے بیان سے متعلق سوال اٹھایا کہ کیا ہم نے گلوان وادی پر چینی مؤقف تسلیم کرلیا ہے؟ وزیر اعظم کے بیان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس وادی میں چین کا نیا دعویٰ تسلیم کرچکے ہیں۔ انہوں ںے بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور وزیر اعظم کے بیانات میں تضادات کی نشان دہی بھی کی۔
لداخ میں چین اور بھارت کے مابین کشیدگی کے بارے میں سب سے پہلے خبریں اور تجزئیات دینے والے سابق فوجی اور موجودہ صحافی کرنل (ر) اجے شکلا نے کہا کہ کیا میں نےآج وزیر اعظم مودی کو دوبارہ چین بھارت سرحدیں کھینچتے ہوئے دیکھا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ہماری سرحدوں میں داخل ہی نہیں ہوا تو 20 فوجیوں کی جانیں کیوں گئیں۔ کیا حکومت سمجھتی ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ کر بچ نکلے گی۔