کورونا بحران سے ہلکان سندھ کے باسیوں کو کل ایک پریشان کن خبر ملی۔
سندھ ہائی کورٹ نے پرائیویٹ اسکولز کی فیسوں میں بیس فی صد رعایت کے حکم نام پر اسٹے آرڈی جاری کر دیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ سندھ حکومت نے کورونا بحران اور لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے نجی تعلیمی اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپریل اور مئی کی فیس میں 20 فیصد رعایت دیں۔
جب حکومتی حکم معطل کیا گیا، اور اس معاملے نے خبر کی شکل اختیار کی، تو اکثریت کا وزن حکومت کے پلڑے میں تھا اور دائر کردہ پٹیشن کو منفی اقدام کے طور پر دیکھا گیا، مگر شاید یہ تصویر کا صرف ایک رخ تھا۔
معاملے کا قریب سے جائزہ لینے پر انکشاف ہوا کہ اس کیس میں پرائیویٹ اسکولز کی کوئی ایسوسی ایشن مدعی نہیں تھی، بلکہ یہ جوائنٹ پٹیشن دو اسکولوں کی انتظامیہ کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ اور حیران کن طور پر یہ اسکول ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔
پہلا تھا، کلفٹن میں واقع دی انٹرنیشنل اسکول، جہاں آئی بی International Baccalaureate (IB) جیسا جدید ایجوکیشنل سسٹم رائج ہے، جب کہ دوسرا تھا ایک ٹرسٹ کے تحت اعظم بستی میں قائم سینٹ میری انگلش اسکول۔
دو الگ طرز کی نجی درس گاہوں کا مشترکہ پٹیشن دائر کرنا اور دیگر بڑے اسکولنگ نیٹ ورکس کا اس سے دور رہنا تجسس میں اضافہ کی وجہ بنا، جس کے پیش نظر پٹیشنرز سے رابطہ کیا گیا۔
تیمور مرزا، جو دی انٹرنیشنل اسکول کے بانی پرنسپل ہیں، انھوں نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان حکومت کو ہر بچے کو تعلیم فراہم کرنے کا پابند کرتا ہے، کیوں کہ قومیں تعلیم سے بنتی ہیں، مگر بدقسمتی سے حکومت ایسا نہیں کرسکی، اس لیے دھیرے دھیرے پرائیویٹ اسکولز سامنے آنے لگے۔ انھوں نے یہ خلا پر کیا، یہ ایک طرح گورنمنٹ کے پارٹنر ہیں۔
ان کے مطابق حکومت کو پرائیویٹ اسکولز کو اپنا پارٹنر سمجھتے ہوئے کام کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ آپ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں، مگر ایسا نہیں سمجھا گیا اور رعایت کے حکم نامے میں بھی یہی سوچ کارفرما رہی۔
تیمور مرزا کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایک ہفتے میں تین نوٹی فیکشن آئے، پہلا بہت ہی متوازن تھا، جس مین متاثرین کی مدد اور معاونت کی بات کی گئی تھی، مگر پنجاب حکومت کے اعلان کے بعد سندھ حکومت نے بھی سیاسی دبائو میں حکم نامہ جاری کر دیا، دوسرے فریق کا موقف نہیں سنا۔
تو آپ کا کیا موقف ہے؟ ہمارے اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کورونا بے شک ایک بحران ہے، ہم بھی فکر مند ہیں، مگر یہاں عوام کو ایک عرصے سے معاشی بحران درپیش ہیں۔ اسکول فیس میں کمی کوئی موثر حل نہیں، پھر صرف پرائیویٹ اسکول کیوں، پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیوں کو کیوں اس رعایت کا پابند نہیں کیا جاتا؟ دیگر اداروں پر کیوں اطلاق نہیں ہوتا؟ کنسٹریکشن کی صنت کو رعایتی پیکیج دیا جارہا ہے، جب کہ ایجوکشن کی صعنت، جو قوم کی تعمیر کرتی ہے، اسے رعایت کا پابند کیا جارہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے طور پر متاثرین کی مدد کر رہے ہیں، بہت سے طلبا کو فیس میں رعایت دی، مگر متاثرہ شخص کون ہے، اس کے انتخاب کا حق ہمیں ہونا چاہیے، پرائیویٹ سیکٹر میں اس طرح کا حکم نامہ مداخلت کے مترادف ہے۔
انھوں نے اس فیصلے کو بے نظیر بھٹو کے ویژن سے متصادم ٹھہراتے ہوئے کہا کہ آج جب ہر شخص اپنی کیمونیٹی کی فلاح کے لیے کام کر رہا ہے، ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی کمیونٹی کی دیکھ بھال کریں، اپنے اسٹاف، طلبا، ان کے والدین اور شیئر ہولڈز کا خیال رکھیں، کیوں کہ بحران سے سب ہی متاثر ہورہے ہیں۔
اگر آپ کا موقف اتنا واضح ہے، تو باقی پرائیویٹ اسکولز آپ کے ساتھ کیوں نہیں؟
اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کئی اداروں نے ہمارے موقف کی حمایت کی، مگر وہ براہ راست حکومت کے خلاف نہیں جانا چاہتے، البتہ ہائی کورٹ کے اسٹے کے بعد مجھے امید ہے کہ وہ سامنے آئیں گے، کیوں کہ ہمارا موقف اصولی ہے۔
سینٹ میری انگلش اسکول، اعظم بستی کے پرنسپل آئیون فرخ منہاس کا موقف بھی یہی ہے۔
ان کے مطابق حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ہم پارٹنر کے طور پر ان کے ساتھ ہیں، ان کے مدمقابل نہیں۔ پھر ہمارا ادارہ ایک ٹرسٹ ہے، جہاں ہم ویسے ہی ہر طالب علم کو تیس فی صد رعایت دے رہے ہیں، دیگر شرائط بھی پوری کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسی شرائط عاید کی جاتی ہیں، تو تمام نجی ادارے اس کے دائرے میں آنے چاہییں، ساتھ ہی انتخاب کا اختیار ہمارے پاس ہونا چاہیے۔
فرخ منہاس نے کہا کہ دیگر پرائیویٹ ادارے بھی اس پٹیشن کے حق میں ہیں اور انھیں یقین ہے کہ کورٹ ان کے اصولی موقف کی حمایت کرے گا۔
قصہ مختصر، فیس میں رعایت کا حکم نامہ اور اس پر اسٹے اتنا سادہ معاملہ نہیں۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔
کورونا بحران کے دوران لازم ہے کہ حکومت موزوں اور مربوط اقدامات کرے، جو زیادہ موثر ثابت ہوں
فیچر نگار: اقبال خورشید