کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پوری دنیا اس وائرس کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن پر چلی گئی، تمام صنعتی،سیاحتی اور کاروباری شعبے بند ہوگئے۔عالمی معیشت کو کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوا جس میں سب سے زیادہ امریکہ اور یورپی ممالک کو ہواجہاں کیسز کی تعداد بھی دنیا بھر سے زیادہ تھی۔امریکہ میں 20 لاکھ سے زائد لوگ کورونا وائرس میں مبتلا ہوئے جن میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دنیا بھر کے سائنسدان اور سائنسی ادارے کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں مصروف عمل ہیں مگر اس میں کم سے کم ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہےیعنی ہمیں کم سے کم ایک سال اس بیماری کے ساتھ اسی طرح رہنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی مطابق کوروناوائرس کا جلد خاتمہ ممکن نہیں بلکہ غالب امکان یہ ہے کہ یہ وائرس اب ہمیشہ رہے گا۔ یہ بات مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ پوری دنیا اور اس کی معاشی سرگرمیوں کو غیر معینہ مدت کے لئے بند نہیں رکھا جاسکتا اور اسی لئے اب دنیا بھر میں آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن میں نرمی لائی جارہی ہے اور حفاظتی اقدامات پر مبنی ضابطہ اخلاق کو ہر شعبے میں متعارف کرایا جارہا ہے ۔
اب ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ اس وبا نے ہمارے ساتھ رہنا ہے اور ہمیں اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے۔ زندگی گزارنےکے طریقہ کار میں بھی بہت تبدیلیاں ہونگی، حفظان صحت کےاصولوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا ۔
ہمیں اپنے آپ کو اس بیماری کی وجہ سے آنے والے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن پر قابو پانا ہوگا کیونکہ عالمی ماہرین صحت کے مطابق بیماری میں براہ راست مبتلا ہونے کے علاوہ افرا د ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کی وجہ سےبھی شدید پریشانی کا شکار ہیں جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔
یہ دنیا اب وہ دنیا نہیں رہے گی جو کورونا وائرس سے پہلے تھی، اس کی وجہ سے ہر شعبے میں تبدیلی آئے گی اور ہم جتنا جلدی ان تبدیلیوں کے ساتھ جینا سیکھ لیں ،یہ ہم سب کے لئے بہتر ہوگا۔