کورونا وائرس اور دینِ اسلام

سُہیر عارف

ایک وائرس جو چین کے ایک چھوٹے شہر کی ایک مارکیٹ سے شروع ہوا اور آج پوری دنیا اِس سے متاثر ہے، کورونا اصل میں وہ وائرس ہے جو جانوروں میں پایا جاتا ہے اور اگر انسان کو ایک بار لگ جائے تو پھر ایک سے دوسرے کو بآسانی منتقل ہوتا چلا جاتا ہے. چین میں یہ جانور کا گوشت کھانے سے پھیلا! جہاں تک غیر مسلموں کی بات ہے وہ ہر جانور کو اپنے لیئے حلال سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے، اسلام میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر چیز کے بارے میں واضح احکامات دئیے ہیں، اِسی طرح گوشت کے بارے میں بھی واضح ارشادات ہیں کہ ہمارے لیئے کس جانور کا گوشت حلال ہے اور کس کا نہیں، کس کا فائدہ مند ہے اور کس کا نقصان دہ ہے۔

لیکن ان لوگوں نے اللہ تعالٰی کے احکامات کو نظر انداز کیا اور اُس کی حَدوں کو توڑا جس کا خمیازہ آج پوری دنیا بھُگت رہی ہے. ایک بات جو سوچنے والی ہے وہ یہ کہ چین والوں کو اُن کی خود کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے لیکن مسلمانوں کا قصور کیا ہے؟ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمیں اپنی ذات سے فرصت نہیں، مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اللہ کے احکامات کی پابندی ہو رہی ہے یا نہیں، کیونکہ وہ خود بھی اُن احکامات سے غافل ہیں!

اس وائرس کے پھیلاؤ کی ایک وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت بھی ہے۔  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر آپ نے وباء کے بارے میں کہیں سنا ہے تو اس جگہ کو نہ چھوڑیں اور نہ ہی کوئی غیر ملکی وہاں داخل ہوگا! غیر مسلم ایک طرف ، مسلمان بھی اس حدیث کو بھول گئے ہیں! اور اس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔


آج انسان سائنس ترقی کے اُس عروج پر ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، انسان نے اپنی ذہانت کی بنیاد پر بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں! لیکن انسان یہ بھول جاتا ہے اُس کا ایک خالق ہے جو جب چاہے، جو چاہے، کر گزرنے پر قادر ہے، انسان اشرف المخلوقات ہے اور دیکھا جائے تو ہر مخلوق اِس کی خدمت میں لگی ہے، اور یہ سب اللہ کریم کا فضل ہے، لیکن انسان نے اِن سب فضائل کی بنیاد پر خود کو ربّ خالق کا مقابل سمجھ لیا!


اللہ نے چھوٹے سے وائرس کے ذریعہ انسان کو اُس کی اوقات دکھادی ہے اور انسان اپنے خالق کے سامنے بے بس ہو گیا ہے، دنیا کی معیشت تباہ ہوگئی ہے، لوگوں کے کاروبار بند، سب اپنے گھروں میں مَحصور ہوگئے ہیں، تمام ممالک ہر سال کے آغاز میں حکمتِ عملی تیار کرتے ہیں کہ رواں سال وہ کس  سٹریٹجی پر نظام چلائیں گے، ایک منصوبہ بندی انسان کرتا ہے اور ایک اللہ کرتا ہے، یقیناً اللہ بہترین منصوبہ ساز ہے۔
کرتا ہے جو ناز اپنی بلندی پر”
سوچتا نہیں کیوں اپنی تخلیق پر،
تھا وہ کیا پیدائش سے پہلے،
ایک گدلا پانی جو رحم میں ٹھرے”