بات اگر پاکستان کی، کی جائے تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، یعنی کہ عوام کا پیسہ عوام تک نہیں پہنچتا بلکہ کرپٹ مافیا وہ پیسہ ہڑپ لیتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی ملک و قوم تب تک نہیں کر سکتی جب تک وہ کرپشن کو ختم نہ کردے اور کرپٹ افراد کو سزا دے کر اُسے اُس کے انجام تک نہ پہنچا دے۔
پکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی ایسی حکومت آئی ہوگی جس نے ازخود اپنے ہی پارٹی رہنماوں،وزرا اور اتحادی جماعتوں کے خلاف کاروائی کی ہو۔یہ کریڈٹ بھی صرف عمران خان کو جاتا ہے جس نے ہمیشہ کرپشن اور روایتی سیاسی نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ۲۲ سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد برسراقتدار ا خان اس سے پہلے بھی ایک ایسا بہادرانہ فیصلہ کرچکے ہیں جب ان کی پارٹی پچھلے دور حکومت میں کے پی کے میں برسراقتدار تھی۔ پہلے عمران خان کے حکم پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک نےاہم ترین اتحادی پارٹی قومی وطن پارٹی کے وزرا کو کرپشن کی وجہ سے برطرف کیا اور دوسری دفعہ سینیٹ انتخابات میں وفاداریاں بدلنے اور پارٹی احکامات کے خلاف مخالف امیدواروں کو ووٹ دینے والے ۲۰ پارٹی اراکین اسمبلی پر بھی انضباطی کاروائی کی۔
عمران خان نے جو کہا وہ کر دکھایا اُنہوں نے اپنے قریب ترین دوست اور پارٹی کے سینئر ترین رہنما جہانگیرترین کے خلاف بھی فیصلہ لے کر ثابت کردیا کہ کرپشن پر زیرو فیصد ٹالرینس ہے۔ یاد رہے یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جو اپنی مظبوط سیاسی اور مالی حیثیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور موجودہ حکومت کے قیام میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ وفاق اور خصوصا پنجاب اسمبلی میں جب پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے کیلئےمطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں مشکلات سے دوچار تھی تو جہانگیر ترین نے زیادہ تر آزاد اراکین اسمبلی کو اپنے سیاسی اور مالی اثرورسوخ کی وجہ سے پی ٹی آئی میں شامل کرایا جس کے لئے ان کا جہاز ان امیدواران کو ان کے آبائی علاقوں سے بنی گالا لے جاتا تھا۔
پی ٹی آئ کی وفاقی اور پنجاب حکومت مکمل طور پر مسلم لیگ ق کے اتحاد پر قائم ہے اگر کسی بھی موقع پر یہ اتحاد توٹا اور مسلم لیگ ق نے اپوزیشن (مسلم لیگ ن اور پی پی پی) کی حمایت کا فیصلہ کرلیا تو واضح طور پر وفاقی اور پنجاب حکومت میں تبدیلی سامنے آسکتی ہے۔مسلم لیگ ق کے رہنما،سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ اسپیکرپنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ کے صاحبزادے مونس الہیٰ کانام بھی اس رپورٹ میں ہے لہذا یہ خدشہ خارج ازاامکان نہیں کہ عمران خان کو مونس الہیٰ پر کاروائی کی صورت میں ق لیگ کی حمایت سے دستبرداری کی دھمکی کا سامناکرنا پڑے۔متوقع صورتحال میں عمران خان کو حکومت یا احتساب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا اور انتخاب کوئی بھی ہو اس کے نتائج کا خمیازہ ملک اور پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔
ہر حکومت میں کچھ چہرے مشترک ہوتے ہیں یہ وہی طبقہ ہے جس کی سیاسی اور انتخابی طاقت کے آگے حکومت اور حکومتی ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ اب فیصلے کی گھڑی آچکی ہے، عمران خان نے اس سیاسی نظام کی جانب ایک قدم بڑھادیا ہے جو ہر ایک کیلئے یکساں ہوگا اور وہاں پر کسی کی بھی اجارہ داری نہیں ہوگی، کوئی بھی انتخابی یا سیاسی گروہ اپنی مٹھی بھر سیٹوں کے بل بوتے پرحکومت اور حکومتی اداروں کو بلیک میل نہیں کرسکے گا۔
یہ سفر آسان نہیں ہوگا جس میں عمران خان کو سیاسی نقصانات بھی اٹھانے پڑیں گے مگر عوام نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑنا اور ان موروثی سیاستدانوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں نہیں بھیجنا جو اپنے کالے کارناموں میں حکومت کو حصہ دار بناتے ہیں اور حکومتی مشینری یرغمال بنی رہتی ہے۔