افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے حالات کبھی بھی سازگار نہیں رہے۔ ہماری حکومتیں برسہا برس سے سالانہ قومی بجٹ میں صحت کا انتہائی معمولی حصّہ مختص کرکے اپنے تئیں اپنی ذمے داریاں پوری کرتی چلی آئی ہیں۔ اس سے اُن کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صحتِ عامہ سے ہمیشہ پہلوتہی برتی جاتی رہی۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار سب کے سامنے ہے، وہاں علاج کرانے کے لیے غریبوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب جاکے علاج کی سہولت میسر آپاتی ہے ۔ امراض ہیں کہ انتہائی خوف ناک طریقے سے پھیلتے رہتے ہیں۔
تھیلیسیمیا کا ہی ذکر کیا جائے تو یہ ایسا مرض ہے، جس میں ہر کچھ روز بعد مریض کے جسم کو نئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں اس موذی مرض میں مبتلا بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ معصوم، لوگوں کی جانب سے دیے گئے خون کے عطیات کی بدولت زندگی کی ڈور سے بندھے رہتے ہیں، عام حالات میں تو ان کے لیے خون کے عطیات ضرورت کے متوازی جمع ہوجاتے ہیں، لیکن ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے موجودہ لاک ڈائون کی صورت حال کے باعث خون کے عطیات میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے بلکہ وہ نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ انتہائی دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ امر تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے لیے سوہانِ روح ثابت ہورہا ہے اور اس باعث تادم تحریر چار معصوم مریضوں کی زندگیاں ضائع ہوچکی ہیں۔گزشتہ روز پشاور، چارسدہ، نوشہرہ میں تھیلیسیمیا اور خون کے امراض میں مبتلا 4 بچے زندگی کی بازی ہار گئے ، لاک ڈائون کے نتیجے میں خون کے عطیات کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی آگئی، خون کی قلت پیدا ہونے کے باعث تھیلیسیمیا سمیت خون کے امراض میں مبتلا بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں، خون عطیہ کرنے والے افراد کی تعداد انتہائی کم ہوگئی، مختلف اداروں کے مطابق خون کے عطیات نہ ہونے سے موذی مرض میں مبتلا بچوں کو مایوس لوٹنا پڑرہا ہے، جو کسی بھی خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ خبر افسوس ناک ہونے کے ساتھ سنگین حالات کی غمازی کرتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تھیلیسمیا سے متاثر کتنے ہی بچوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں۔ اسی تناظر میں اہم شخصیات نے بھی لوگوں سے زیادہ سے زیادہ خون کے عطیات دینے کی اپیل کی ہے۔ ہمارے دین نے ایک انسان کی زندگی بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بچے اس کائنات کی خوبصورتی ہیں۔ اُنہی سے اس دُنیا کے رنگ ہیں۔ بچے سبھی کے سانجھے ہوتے ہیں۔ ان معصوم پھولوں کی آب یاری ہم سب کو کرنی ہے۔موجودہ گمبھیر حالات میں تھیلیسمیا سے متاثرہ بچوں کو ہرگز فراموش نہ کیا جائے۔ ضروری ہے کہ انسانیت کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے افراد اس نازک موقع پر آگے آئیں اور ان معصوموں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔ لوگ لاک ڈائون کے باوجود ان معصوم زندگیوں کو بچانے کے لیے قدم بڑھائیں۔ ناگزیر ہے کہ زیادہ سے زیادہ خون کے عطیات دیے جائیں، زندگی پر ان معصوموں کا بھی حق ہے۔