کراچی: معروف ادیب و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے لیکن وہ آج بھی اپنی تحریروں کے ذریعے زندہ ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923ء کو جے پور راجستھان (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں ںے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہجرت کی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران مختلف بینکوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔
مشتاق یوسفی کی تحریروں میں انشائیے، خاکے، آپ بیتی سب ہی انداز شامل ہیں جسے پڑھ کر اردو زبان کے مزاحیہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کا گرویدہ نظر آتا ہے۔ وہ اردو مزاح نگاری میں اپنی جداگانہ تحریروں کی وجہ سے ہر دور میں مقبول رہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کے مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان کی تحریروں میں ماضی کی حسین یادوں کے ساتھ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ادبی ہر رنگ ک جھلک ملتی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کے کل پانچ مجموعے شائع ہوئے جن میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم اور شام شعر یاراں شامل ہیں۔
ان ساری کتابوں نے اپنی تمام تر مزاحیہ چاشنی کے ساتھ اردو ادب کے قارئین کو مسحور کیے رکھا، ادب میں نمایاں خدمات پر حکومت پاکستان نے انھیں سن 1999ء میں ستارہ امتیاز جبکہ سن 2002ء میں ہلال امتیاز سے نوازا۔
علالت کے بعد 20 جون دو ہزار 2018ء کو مشتاق احمد یوسفی اس جہان فانی کو خیرباد کہہ گئے تھے، ادیبوں، محققین اور ادب کے دلدادہ افراد کے مطابق مشتاق احمد یوسفی اردو زبان و ادب کا ایک ایسا ستارہ تھے جو طویل عرصے تک عہد یوسفی بن کر تابندہ رہے گا۔