اللہ کی تخلیق بنا تفریق کیا خوب ہے کہ جس شے پہ نظر پڑے، وہ دوسرے سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔
رنگ ہیں، جو بکھرے پڑے ہیں، بات صرف محسوس کرنے کی ہے۔ انسان تمام مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق ہے۔ انسان کی افضلیت کی نشانی بھلا رکھی کس بنیاد پر ہے؟ ”دماغ“ پر۔
دماغ تو جانور بھی رکھتے ہیں، پر استعمال کم ہی کرتے ہیں اور خال خال ہی ان کے قابو میں رہتا ہے۔ جانور ایک دوسرے کے مدمقابل جسمانی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر ان کو اس اہم حصے یعنی دماغ کی قدر کا احساس ذرا سا بھی ہو گیا، تو سمجھٸے حضرت انسان تباہ۔
ہم انسان پیداٸش سے موت تک بہت سے کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر کردار کو وقت کی ضرورت کے تحت بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش لگی رہتی ہے۔ ہر مرحلے میں جسم کے جس حصے کا کردار سب سے اہم ہے وہ ہے ”دماغ“۔
اسی کے ذریعے تو ہم بادشاہی کرتے ہیں اور اسی کے غلام بھی بنتے ہیں۔ ساٸیکالوجی میں زور دماغ پر ہی دیا گیا ہے۔ یعنی ہر مصیبت، ہر وبا کا علاج، ”دماغ“۔ زیادہ پیچیدہ الفاظ استعمال کرنے کے بجاٸے میں یہ آسان بنا دیتی ہوں کہ آپ اگر بیمار نہیں بھی ہیں اور کسی بیماری کے بڑھتے خطرے کے بیچ رہ رہے ہیں، تو یہ ڈر کہ آپ کو کہیں یہ بیماری، وہ بیماری لاحق نہ ہو جاٸے، آپ کے دماغ کی کمزوری اور ڈر آپ کو لے ڈوبے گا۔ جب کہ اس کے برعکس اگر آپ کے اعصاب اور دماغ میں مثبت باتوں کی بازگشت ہے تو تب تو غیر محفوظ علاقے میں بھی آپ سمجھٸیے خود کو محفوظ۔
ایک ریسرچ میں یہ بات بنیاد بناٸی گٸی کہ ایک شدید علیل شخص اگر دماغی طور پر مضبوط ہے اور اس کے ارد گرد مثبت بات چیت چل رہی ہے تو اس بیماری سے متعلق ڈر انسان کو نڈر بنا دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چاند کی چمک خود چاند کی اپنی چمک نہیں بلکہ سورج سے لی گٸی ہے۔ ویسے ہی کمزور انسان کبھی کمزور نہ کہلاٸے، جب تک اس کے ارد گرد کے لوگ اور ماحول اس کے دماغ سے یہ بات بھلا دیں کہ یہ ایک سوچ ہے، جس کو بدل دینا چاہیے۔
ہمیں بحیثیت انسان اپنے ”دماغ“ کی قدر اور اس پر بھروسہ کرنا سیکھنا ہوگا کہ فقط یہی وہ طاقت ہے، جو باقی مخلوقات سے ہمیں افضل بناتی ہے۔
اب دماغ کو مضبوط، فیصلے لینے کے قابل اور مثبت کیسے بنایا جاٸے؟ ساٸیکالوجی نے اس کو بھی آسان بنا دیا۔ کچھ ایسے کام جس میں دماغ اپنی طاقت کا زور لگاٸے اور صحت مند کہلاٸے ، ان میں سے سب سے پہلے تو ورزش کا شامل ہونا ضروری ہے۔ ہلکی پھلکی ورزش جیسے تیز چہل قدمی ، یوگا ، مراقبہ ان سے ذہن کو خون کی فراوانی بڑھ جاتی ہے اور دماغ بہتر نتیجے دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ باقی وہ حرکات و سکنات جن سے دماغ کے کام کرنے کی رفتار بہتر اور صحت مند ہو سکتی ہیں، ان میں کتابوں کا مطالعہ کرنا ، غذا میں صحت مند چیزوں کو شامل کرنا ، مثبت لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا ، کچھ نیا سیکھتے رہنا ، اپنے کاموں کو اس ہاتھ سے انجام دینا، جس سے روزمرہ کے کام جیسے لکھنا ، کھانا وغیرہ نہ ادا کرتے ہوں، اس ہاتھ کے استعمال سے مختلف امور انجام دینا بھی دماغ کو تیز کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
غرض”دماغ“ کو قابل استعمال بنانا ہے اور مصاٸب اور وباٸوں کے ڈر سے پیچھا چھڑانا ہے تو سوچ سمجھ کر اسی دماغ کے بھروسے چلنا ہوگا۔ سوچ وہ پالنی ہو گی، جس سے مساٸل کا حل نکل سکے۔ آپ نے خود کو کمزور سمجھ لیا، تو کوٸی آپ کو مشکلات کے دلدل سے نکال نہیں پاٸے گا۔
گر رکھنا ہے مساٸل سے دور اس زندگی کا کام
تو کرنا پڑے گا استعمال ”دماغ“ کا صبح و شام