اسلام آباد: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان نے غیر مستقل رکنیت کے امیدوار بھارت کے بے رحمانہ اور توسیع پسندانہ عزائم دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے ٹھوس سفارتی مہم شروع کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ بھارت کو قریباً یقین ہے کہ وہ آئندہ دو سال کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں جنرل اسمبلی بدھ کو دس غیر مستقل ارکان میں سے پانچ کا انتخاب کرے گی۔
سلامتی کونسل کے آئندہ غیر مستقل ارکان کی دو سالہ مدت جنوری 2021 سے شروع ہوگی۔ بھارت ایشیا/ بحرالکاہل کے خطے سے الیکشن لڑرہا ہے۔ پچھلے سال جون میں ایشیا پیسیفک گروپ کے ذریعے اس کے امیدوار کی حمایت کی گئی تھی جبکہ پاکستان اور چین اس گروپ کا حصہ ہیں۔ تاہم دفتر خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے واضح کیا کہ سلامتی کونسل کی نشستوں کے انتخابی عمل کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔
عہدیدار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایشیا پیسیفک گروپ سے بھارت واحد امیدوار تھا لہذا توثیق کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ سال جون میں جب اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر سید اکبرالدین نے اپنے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں غیر مستقل نشست کے لیے امیدوار کی حیثیت سے بھارت کی توثیق کرنے پر پاکستان سمیت ایشیا پیسیفک کے ممالک کا شکریہ ادا کیا تو پاکستان نے اس ٹویٹ میں گمراہ کن معلومات کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ایک عہدیدار نے ان تمام واقعات کے پس منظر سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ بھارت ایشیا پیسیفک گروپ کا واحد امیدوار تھا لہذا اس طرح کی کوئی بھی توثیق محض ضابطے کی کارروائی تھی۔ ماضی میں پاکستان کو بھی اسی طرح سے توثیقات حاصل ہوتی رہی ہیں۔ لیکن عہدیدار نے واضح کیا کہ گروپ مرحلے میں توثیق کا حتمی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اب بھی جنرل اسمبلی میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہر ممبر کو ووٹ ڈالنا پڑتا ہے۔
’’کیا پاکستان گروپ مرحلے پر ہی بھارتی نامزدگی کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا؟‘‘ اگرچہ مذکورہ عہدیدار نے اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیا لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح کی کارروائی سے اقوامِ متحدہ میں مزید نئے محاذ کھل جاتے، جو ممکنہ طورپر اُس وقت پاکستانی مفادات کے حق میں نہ ہوتے۔
عہدیدار نے مزید وضاحت کی کہ گروپ مرحلے کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے مختلف فورمز کےلیے پاکستان کی 8 نامزدگیاں تھیں، جن میں غیر مستقل ممبر نشست بھی شامل تھی۔ لہذا، گروپ مرحلے پر بھارت کی مخالفت سے پاکستان کےلیے طویل المیعاد مشکلات پیدا ہوجاتیں کیونکہ ماضی میں بھی اقوامِ متحدہ کے مختلف فورمز کی رکنیت کےلیے پاکستانی امیدوار کی توثیق ایشیا پیشیفک گروپ کی جانب سے کی جاتی رہی ہے، جس کا بھارت بھی ایک رکن ہے۔ پاکستان اور بھارت، دونوں ہی ماضی میں سات سات مرتبہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔
گروپ مرحلے میں دونوں نے صرف ایک بار 1970 کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا۔ اس وقت اسلام آباد نئی دہلی کو شکست دینے میں کامیاب رہا تھا، اس کے بعد دونوں ممالک نے گروپ مرحلے پر ایک دوسرے کے مدمقابل نہ آنے کا فیصلہ کیا۔
اس بار بھی پاکستان 2022-2023 کےلیے جبکہ بھارت 2021-2022 کی میعاد کےلیے انتخاب لڑنا چاہتا تھا لیکن پاکستان ایسا نہیں کرسکا کیونکہ جنوبی کوریا نے اسی مدت (2022 تا 2023) کےلیے پہلے ہی اپنے امیدوار کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم اب پاکستان 2025-2026 کی میعاد کےلیے منتخب ہونے کی تیاری کررہا ہے، جس کےلیے وہ ایشیا پیسیفک کے خطے سے تنہا امیدوار بھی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس مدت کےلیے 2024 میں ہونے والے انتخابات کے دوران بھارت کی جانب سے پاکستان کو مخالفت کا سامنا نہیں ہوگا، عہدیدار نے بتایا کہ ہندوستان یہ خطرہ کبھی مول نہیں لے گا۔ انہوں نے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا، ’’آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ (بھارت کے خلاف سفارتی محاذ پر) ہمارا منصوبہ کس طرح سامنے آتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہونے کےلیے امیدوار ملک کو 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 129 کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، بھارت کو مطلوبہ تعداد میں ووٹ ملنے کا امکان ہے۔