پاکستان میں سائبر کرائیم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سائبر ہراسگی سے جنسی ہراسگی تک نوے فیصد واقعات خواتین کے ساتھ ہو رہے ہیں۔
آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں
ہیلو مجھ سے دوستی کروگی؟
تم کیا کرتی ہو؟
تم جواب کیوں نہیں دیتیں؟
آپ ایک خاتون ہیں اور آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کوئی شخص ایسے پیغامات بھیج رہاہے جس کی وجہ سے آپ ذہنی کوفت یا اذیت کا شکار ہیں تو سمجھیں آپ سائبر ہراسگی کا شکار ہوچکی ہیں۔ بہت سی خواتین ایسے پیغامات کو بدنامی کے ڈر سے نظر انداز کردیتی ہیں اور خواتین کی یہ خاموشی ہراساں کرنے والوں کو اور بھی ہمت دیتی ہے۔
صورتحال اس وقت اور بھی خراب ہوجاتی ہے جب ہراسگی پر مبنی یہ پیغامات محض جملے بازی تک محدود نہیں رہتے اور ایک خاتون کو باقاعدہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ جنسی طور پر ہراسگی کی شکایات کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد نازیبا ویڈیوز یا تصاویر بھیج کر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔
تیسری قابل ذکر صورتحال وہ ہوتی ہے جب کسی خاتون کو اس کی ذاتی نوعیت کی تصاویر یا ویڈیوز کی مدد سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ محبت یا گہری دوستی کے بہانے ایک خاتون کا اعتبار حاصل کیا جاتا ہے۔ باہمی اعتماد کے اس دور میں زیادہ تر خواتین ناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذاتی نوعیت کی نازیبا تصاویر یا ویڈیوز دوسرے سے شیر کردیتی ہیں جسے منظم انداز میں یہ جرم کرنے والے فوری طور پر بلیک ملیلنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں ایسا بھی ہوا کہ محبت یا دوستی کا تعلق ٹوٹ جانے کے بعد مرد حسد یا جلن کی وجہ سے خواتین کو بلیک میل کرتے ہیں۔ یہاں بھی خواتین بدنامی اور جگ ہنسائی کے ڈر سے خوف کا شکار ہوجاتی ہیں اور کئی کئی سال بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں ہم انٹرنیٹ پر ہراسگی، جنسی ہراسگی اور بلیک میلنگ کو ایک سچے واقعے کی مدد سے بیان کرینگے۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اس کہانی کے کرداروں کے نام ظاہر نہیں کیے جارہے ہیں۔
اپنے آبائی گاوں سے تعلیم اور ملازمت کے لئے کراچی آنے والی ایک لڑکی نے کراچی کے ہاسٹل میں رہائش اختیار کی۔ کچھ عرصے بعد اس کی دوستی ایک لڑکے سے ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر بھی چیٹنگ کا سلسلہ چل نکلا۔ کئی ماہ تک پیدا ہونے والی بے تکلفی اور اعتبار کے بعد لڑکے نے اس لڑکی کو مالی سہارا دینے کے بہانےایک عجیب و غریب طریقہ بتایا۔ لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ وہ شام کے وقت اس کی بنائی ہوئی ایک سائٹ پر لائیو اپنے جسم کی نمائش کرے اور اس دوران اپنے چہرے کو چھپائے رکھے۔ کچھ روز تک یہ سلسلہ جاری رہا لڑکا انٹرنیٹ سائٹ سے ملنے والی کچھ رقم کا ایک حصہ لڑکی کو بھی ادا کردیتا، لیکن لڑکی اس سارے سلسلے سے ناخوش تھی۔ ضمیر کے بار بار ملامت کرنے اور مسلسل ذہنی دباو سے تنگ آکر لڑکی نے اس سلسلے کو ختم کرنے کا کہا لیکن ملزم باز نہ آیا۔ اس کے بعد لڑکا اسلحے کے زور پر لڑکی کو جسمانی نمائش کے لئے مجبور کرنے لگا۔ کچھ روز یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران بعض اوقات ملزم لڑکی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بناتا۔
متاثرہ لڑکی کو اس عذاب سے نجاتے دلانے اور قانونی مدد حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے والی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ فوزیہ طارق "‘لو از مائی پروٹیکٹر”’ کے نام سے ویب سریز کی بانی ہیں۔ یہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے صنفی امتیاز پر تشدد کے دیگر جرائم سے متاثرہ لوگوں اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پل کا کردار ادا کرتی ہیں۔ فوزیہ طارق کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی نے جس وقت رابطہ کیا تو وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھی۔ اسے قانونی راستہ دکھانے کے لئے بہت حوصلہ دینا پڑا، لیکن شکایت درج ہونے کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم نے سارے واقعے میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا۔ جس سے تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ لڑکی سے برہنہ لائیو کرکے پیسہ کمانے والے ملزم کا تعلق ایک بین الاقوامی نیٹ ورک سے ہے۔ فوزیہ طارق کا کہنا ہے کہ سائبر ہراسگی یا کسی بھی صنفی امتیاز پر ہونے والے جرائم سے متاثرہ افراد ان سے رابطہ کرسکتے ہین۔
پاکستان میں الیکٹرانک جرائم کے تدارک کے لیے سائبر کرائم بل 2016 میں منظور ہوا۔ اس بل میں ایسے 23 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر ضابطہ فوجداری کی 30 دفعات لاگو ہوسکتی ہیں۔ سائبر کرائم بل کی منظوری کے بعد سائبر ہراسگی، جنسی ہراسگی اور بلیک میلنگ کی شکایات کا شعور بھی بڑھا اور اس کے ساتھ باضابطہ تحقیقات اور گرفتار ملزمان کو سزائیں دلانے میں بھی مدد ملی۔
انٹرنیٹ کی مدد سے کسی شخص کے چہرے کی تصویر فحش تصویر یا ویڈیو پر چسپاں کرنے، کسی فرد کی شہوت انگیز تصویر یا ویڈیو کی نمائش یا اشاعت کرنے، کسی شخص کو جنسی فعل یا عریاں تصویر یا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرنے یا اسے جنسی فعل کے لیے قائل کرنے، ترغیب دلانے یا مائل کرنے پر پانچ سال قید یا 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ نابالغ کے ساتھ پہلی بار ان جرائم پر قید کی سزا کی مدت سات سال ہو گی اور دوبارہ ارتکاب پر دس سال ہوگی۔
یہاں پر یہ سادہ سا سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ غیر ارادی طور پر تصاویر اور ویڈیوز کیسے لیک ہوتی ہیں؟ سائبر ہراسگی یا بلیک میلنگ سے بچاو کے لئے کتنا زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے؟
اس حوالے سے سائبر کرائم انالسٹ نجیب الحسن کا کہنا ہے منظم انداز میں سائبر جرائم کرنے والے کئی طریقوں سے کسی کا بھی موبائل ڈیٹا چراسکتے ہیں مثلا آپ کسی جگہ پبلک وائی فائی استعمال کررہے ہوں تو وہاں ساری معلومات ایک اور لیپ ٹاپ سے ہو کر گزر رہی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی انتہائی ماہر ملزم اپ کے موبائل میں موجود انتہائی ذاتی نوعیت کی تصاویر اور ویڈیوز کا غلط استعمال کرسکتا ہے۔ چیٹنگ ایپلکیشن پر کسی ایک شخص یا گروپ میں تصاوییر ویڈیوزبھیجنے کے بعد انہیں ہر جگہ سے مکمل ڈلیٹ کرنے کے آپشن پر مکمل اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اب ایسی ایپلیکیشنز بھی موجود ہیں جس کی مدد سے آپ کی ڈلیٹ کی ہوئی تصویر اور ویڈیوزکو کوئی بھی دوبارہ ڈاؤن لوڈ کرسکتا ہے۔ ایسی ایپلیکیشنز موجود ہیں جسے کے ذریعے کسی شخص کا چہرہ لگا کر اس کی فیک ویڈیوز بنائی جاسکتی ہیں۔ ہمارے یہاں سمجھا جاتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں موجود نہیں لیکن یاد رکھیں منظم انداز میں سائبر کرائم میں ملوث افراد ایسی ٹیکنالوجی خرید لیتے ہیں۔
سائبر ہراسگی اور بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے نجیب الحسن بہت زیادہ محتاط رہنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سائبر اسپیس میں ایک دفعہ داخل ہوجانے والا ڈیٹا ہمیں نہیں معلوم ڈیلیٹ ہوتا بھی ہے یا کہ نہیں۔ محبت، گہری دوستی یا ازداوجی تعلق قائم ہونے کے بعد بھی انتہائی نجی قسم کی تصاویر شیر کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ زیادہ تر کیسوں میں محبت یا تعلق ختم ہونے کے بعد بلیک میلنگ ہوتی ہے۔
قانونی اور تحقیقاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر خواتین یا کوئی بھی دوسرا شخص انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران تمام احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ سماجی سطح پر خواتین کو اس بارے میں بہت اگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی جرم کا شکار ہونے کے بعد بے خوف ہوکر سائبر کرائم میں شکایت درج کرائی جائے تو سائبر ہراسگی کی شرح کم سے کم ہوسکتی ہے۔ جرم کی شکایت درج کرنے کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم میں موجود ماہر تفتیش کار بہترین انداز میں کام کرتے ہیں۔ متاثرہ خواتین کا نام صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ متاثرہ خواتین کو بھی جرم سے جڑے شواہد کے بارے میں خاموشی اختیار کرنی چاہئے ورنہ ملزمان کی جانب سے شواہد کو ضائع کئے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے ) ثناء اللہ عباسی کی زیر صدارت سائبر کرائم سرکلر انچارج کے ہونے والے اجلاس میں سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے مقدمات کی تفصیل پیش کی گئی اور مقدمات کی پیش رفت کے لئے سائبر کرائم ہیڈ کوارٹرز میں ایک خصوصی یونٹ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ زیر سماعت مقدمات کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم کے مقدمات درج کرنے سے گریز نہ کیا جائے اور ترجیحی بنیادوں پر کم وقت میں مقدمات پر کارروائی کی جائے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایک سابق افسر بتاتے ہیں کہ شہر کراچی میں روز کی بنیاد پر سیکڑوں شکایات موصول ہوتی ہیں۔ خصوصی طور پر خواتین کی شکایات بہت زیادہ ہیں اور ان میں سائبر ہراسگی کی نوے فیصد شکایات ہیں۔ سائبر ونگ کی سہولیات کو وسیع کرنا ہوگا۔