جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے اور ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اللہ سبحان و تعالیٰ کا قُرب حاصل کر سکے، لیکن میڈیا نے اِس با برکت مہینے کی حُرمَت پامال کرنے میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے رمضان ٹرانسمیشنز کی صورت میں. بظاہر تو اِن ٹرانسمیشز کا مقصد لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ہے لیکن کچھ سالوں سے اِن ٹرانسمیشنز میں اسلام کم اور بے حیائی اور بے ہودگی زیادہ دکھائی جاتی ہے، اور ہماری عوام جو اسلام احکامات سے ویسے ہی ناآشنا ہے وہ اِن پروگرامز میں بھر پور دلچسپی دکھاتی ہے.
ابھی پچھلے دِنوں کی بات ہے ایک نام نِہاد مشہور اسلامی سکولر ڈاکٹر صاحب نے اپنے پروگرام میں ایک ماڈل لڑکی کو مَدعُو کیا اور پھر اُس لڑکی سے (کیٹ واک) پر تبصرے شروع کر دیے، حَد تو تب ہوئی جب جناب نے پڑوسی مُلک کی ماڈل کی کہانی پر مبنی بے ہودہ فِلم کا حوالہ دیتے ہوئے فِلم اور اُس کی اداکارہ کی تعریف کی، ویسے ڈاکٹر صاحب اپنے پروگرامز میں ہر طرح کی شوبِز شخصیات کو مَدعو کرتے ہیں اور بالکل بے مُرَوَّت ہو کر اُن کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور موصوف ہر کسی کے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارا خاص تعلق ہے، پھر چاہے وہ مَرد ہو یا عورت. اگر ٹرانسمیشنز کا مقصد اسلامی احکامات سے روشناس کرانا ہے تو پھر ان کی میزبانی کسی ذمّہ دار انسان کو دینی چاہیے، ہمارے مُلک میں قابلیت کی کمی نہیں کہ ہم ایسے لوگوں سے میزبانی کرائیں جو پورے سال بے حیائی پھیلاتے ہیں اور رمضان میں پکّے مسلمان بن جاتے ہیں.
اور ٹرانسمیشنز میں شُوبِز شخصیات کو بلانے کا کیا مقصد؟ اور اگر اِس بنیاد پر بُلا بھی لیا جائے کہ وہ بھی مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیمات جاننا اُن کا بھی حق ہے، تو پھر اُن کو بُلا کر فِلموں، ڈراموں اور دوسرے شُوبِز پروجیکٹس پر بات کرنے کا کیا مقصد ہے؟ وہ بھی عُلماءِ کرام کی موجودگی میں.
ابھی کچھ دِنوں پہلے ایک شُوبِز سے تعلق رکھنے والی میزبان نے اپنے پروگرام میں قُرآنِ پاک کے اَڑتیس (٣٨) پاروں کا ذکر کیا، اب اِن شخصیات کو میزبانی دینے کا نقصان ہم دیکھ رہے ہیں.
کبھی کسی ٹرانسمیشن میں اسلام کی آڑ لے کر اداکاروں کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں، اور کبھی اختلافی مسائل چھیڑ کر عُلماء کرام میں لڑائی کروادی جاتی ہے اور اِن سب باتوں کا مقصد صرف "چینل کی ریٹنگ” حاصل کرنا ہوتا ہے، لیکن اِس اختلاف کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے اُس کی کسی کو پرواہ ہی نہیں.
جب رمضان المبارک کی کوئی بڑی رات آتی ہے تو عبادت کرنے کے بجائے اُس پر بھی ٹرانسمیشنز کی جاتی ہیں اور اُس کو عِبادت کا نام دیا جاتا ہے، اور ہماری عوام بھی کارِ شَر کو عِبادت سمجھ کر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں.
میرے خیال میں میں اِن ٹرانسمیشنز کا وقت مَحدود کر دینا چاہیے تاکہ لوگ اِس ماہِ مبارک کی برکات حاصل کر سکیں، اور اُس مَحدود وقت میں بھی صرف اِسلام سے متعلق باتیں ہونی چاہیے.