اللہ قرآن میں فرماتا ہے، "جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی”۔
اس آیت کی تفصیل میں جائیں تو اللہ فقط مسلمان کی جان بچانے کا حکم نہیں دے رہا بلکہ پوری انسانیت کی جان بچانے کی تلقین کر رہا ہے ،اسی طرح اسی آیت میں اللہ فرما رہا ہے جس نے ایک انسان کی جان لی اُس نے پوری انسانیت کی جان لی۔ بلاگ کے شروعات میں اس آیت کا ذکر کیوں کیا یہ آپ کو آگے جا کر سمجھ آئے گا۔
اب کورونا کے سبب خانہ کعبہ کو خالی کرانے کے متعلق بات کرتے ہیں۔
کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کردیا ہے وہیں اللہ کے گھر خانہ کعبہ کو بھی احتیاطی طور پر بند کردیاگیا ہے۔ پوری دنیا میں خانہ کعبہ ایک واحد جگہ ہے جہاں چوبیس گھنٹے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ اللہ کی گھر کی زیارت کے لیے یہاں تشریف لاتے ہیں۔
اللہ کے گھر کو اس طرح خالی دیکھ کر ملحدین اور نام نہاد دانشور سوشل میڈیا پر طنز کر رہے ہیں کہ دیکھو اللہ اپنا گھر نہیں بچا سکا۔ سندھ علیحدگی پسند رہنما شفیع برفت ٹویٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وہ تو انسان کا کرایہ دار تھا جو کورونا کے خوف سے گھر خالی کرکے چلا گیا، جس کو سادہ لوگ خدا کہا کرتے تھے”۔
اب ان کی عقل پر ماتم کریں یا انہیں لیڈر سمجھنے والوں کی قسمت پر روئیں؟ علمی وتحقیقی مزاج رکھنے والے حضرات اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ اگر آپ کسی بات پر تنقید کرتے ہیں تو اُس حوالے سے آپ کو پوری معلومات ہونا لازم ہے، جس بات پر تنقید کی گئی اُس کامنطقی اعتبار سے مضبوط ہونا بھی لازم ہے۔
تنقید کرنے سے پہلے ان پر لازم ہے کہ اسلام کے متعلق کچھ پڑھ لیتے ، اللہ نے کہیں نہیں کہا کہ میں خانہ کعبہ میں رہتا ہوں ۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔
خانہ کعبہ خالی ہونا تو اس بات کی بذات خود دلیل ہے کہ ہم خانہ کعبہ کو نہیں پوجتے بلکہ اُس پاک ذات کی عبادت کرتے ہیں جو صحراوُں، جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں اور سمندروں کا خالق ہے ۔ انسان دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو وہ وہیں سجدہ ریز ہوکر اپنے خدا کی عبادت کر سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا:
"یہ کالا پتھر مجھے نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، میں تو اس کو اس لیے چومتا ہوں کیونکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چوما تھا”۔
رہی بات کورونا کی وجہ سے خانہ کعبہ کے طواف کو روک دینا اور لوگوں کوداخل نہ ہونے دینا تو یہ عین خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہی ہے۔
بخاری کی ایک حدیث ہے:
حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اورتم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
مجذوم یعنی کوڑھ کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔ (بخاری)
یہ تو چند احادیث ہیں اس موضوع پر اگر لکھا جائے تو پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ بات یہاں صرف اسلام کی نہیں دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی بات کرتا ہے اور ہر وہ اقدام جو انسانیت کے حق میں ہو اُس کی حمایت کرتا ہے اور ہر وہ اقدام جس سے انسانیت کو نقصان ہو اُس کی مذمت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ کلیسائیں، مندر اور دیگر عبادات کی جگہوں پر بھی لوگوں کی آمد و رفت کو روک دیا گیا ہے۔
کورونا ایک عالمی وبا ہے جس کے خلاف پوری دنیا مل کر لڑ رہی ہے اور یہاں شفیع برفت جیسے جاہل جنہیں نہ دین کا علم ہے نہ دنیا کا وہ اپنی ہی ایک مصنوعی دنیا آباد کرکے بیٹھے ہیں اور اسی دنیا کو حقیقی، اپنے نظریے کو حق اور باقی سارے نظریے کو باطل تصور کیے ہوئے ہیں۔
ہمیں اس وبا سے مل کر جنگ لڑنی ہے، انسانیت خطرے میں ہو تو ذات، رنگ، نسل، قوم، فرقے اور مذاہب کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ لیکن آنجناب ایسی خطرناک صورتِ حال میں بھی اپنی پرانی روایتوں سے باز نہیں آئے اور مذہب کو اپنی کم علمی کے سبب نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ انہیں ایک مشورہ ہے کہ ٹویٹ کرنے سے پہلے تھوڑا سا پڑھ لیا کریں۔ مطالعے سے بہت افاقہ ہوتا ہے۔ آزما لیں!