اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں وفاقی حکومت سے 4 سوال کے جواب مانگ لیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سابق وزیر قانون فروغ نسیم، وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اور سیکریٹری برائے قانون و انصاف ملائکہ بخاری سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے فروغ نسیم پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا، سپریم کورٹ ایک مقدمے میں واضح کرچکی، سرکار کی طرف سے پرائیویٹ وکیل پیش ہوکر دلائل نہیں دے سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت کو نمائندگی کا مکمل حق حاصل ہے، ایک اٹارنی جنرل انور منصور ریٹائرڈ ہوئے دوسرے اٹارنی جنرل نے مقدمے کی پیروی سے معذرت کرلی، اب عدالت کی معاونت کے لیے وفاقی حکومت نے وکیل تو کرنا ہے، اعتراض مناسب نہیں ہے، ہم آپ کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں، پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے، کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جاسکتا ہے؟ ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے، کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟۔
سپریم کورٹ نے فروغ نسیم سے 4 سوالات پر جواب اور دلائل طلب کرتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف مواد غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا، آپ نے مواد کو قانونی اکٹھا کرنے پر دلائل دینے ہیں، شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی اور صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی؟۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کی؟۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو وحید ڈوگر کی شکایت کی کاپی درخواست گزار جج کو فراہم کرنی چاہیے تھی، وحید ڈوگر کی شکایت کی دستاویزات کا دس مرتبہ عدالت نے پوچھا، میڈیا پر کئی بار دستاویزات دکھائی گئیں لیکن عدالت کو نہیں دی گئیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کیا ہے پہلے یہ بتائیں، شکایت یونٹ تک کیسے پہنچی اور اس یونٹ کا آرٹیکل 209 کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔